گڈاپ ٹاؤن میں لائنوں سے گنجان آباد علاقوں کا پانی چوری

اسٹاف رپورٹر  منگل 16 جولائی 2019
سرکاری افسران اور پانی چور مافیا کی ملی بھگت سے فصلوں، باڑوں ، فارم ہاؤسز اور واٹر پارکس کو پانی بیچا جانے لگا
فوٹو: فائل

سرکاری افسران اور پانی چور مافیا کی ملی بھگت سے فصلوں، باڑوں ، فارم ہاؤسز اور واٹر پارکس کو پانی بیچا جانے لگا فوٹو: فائل

کراچی: واٹر بورڈ افسران اور طاقتور پانی چور مافیا کا نیا کھیل بے نقاب ہوگیا،پلاٹس کی طرح واٹر بورڈ کی لائنوں کی بھی ٹرانسفر موٹیشن ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

کراچی کا پانی پر شہر کی آبادیوں میں پہنچنے سے قبل ہی بڑے پیمانے پر چوری کر لیا جا تا ہے جس میں ادارے کے کرپٹ اور بدعنوان افسران براہ راست ملوث بتائے جاتے ہیں، ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ شعبہ بلک کے افسران کی ملی بھگت سے گڈاپ ٹاؤن کے علاقے میمن گوٹھ اور اس کے اطراف علاقوں میں یومیہ کروڑوں گیلن پانی کی چوری کھلے عام جاری ہے ،واٹر بورڈ کے علاقہ وال مین الیاس سمیت بلک اورڈبلو ٹی ایم کے اعلیٰ افسران پانی کی چوری سے حاصل یومیہ لاکھوں روپے کی لوٹ مار میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بدعنوانیوں کا سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وال مین نے پلاٹس کی طرح پانی کی لائنوں کی حیران کن طور پرٹرانسفر اور موٹیشن کرنا شروع کردی ہے اور لائنیں ٹرانسفر کرنے کے عیوض لاکھوں روپے کی مبینہ بھتہ وصولی کی جارہی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ میمن گوٹھ کے اطراف قائم پان کے کھیت واٹر بورڈ کے میٹھے پانی سے سیراب ہورہے ہیں۔

اسی طرح پولٹری فارمز، باڑے، فارم ہاؤسز،واٹر پارکس سمیت دیگر کو واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کرکے سپلائی کیا جارہا ہے، جس کے عیوض افسران نے ماہانہ اور ہفتہ کی بنیاد پر بھتہ مقرر کرر کھا ہے۔

واٹر بورڈ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام صورتحال کا علم ہونے کے باوجود حکام نے پراسرار طور پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کراچی کے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

واٹر بورڈ کے سینئر افسران اور شہری حلقوں نے پانی کی بڑے پیمانے پر چوری پر اعلی تحقیقاتی اداروں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وزیر بلدیات سمیت ایم ڈی واٹر بورڈ سے کروڑوں روپے ماہانہ کی لوٹ مار کرنیوالے افسران کو بے نقاب کرنے کی اپیل اور ایماندار افسران کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔