کینسر کے متعلق چند غلط فہمیاں
یہ اتنا بھی خطرناک نہیں جتنا معاشرے میں اس سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں
اگرچہ کینسر ایک خطرناک بیماری ہے اور اس کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن کا صحیح وقت پر صحیح علاج نہ کیا جائے تو موت کا سبب بن سکتا ہے تاہم یہ اتنا بھی خطرناک نہیں جتنا معاشرے میں اس سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
کینسر سے متعلق چند غلط فہمیاں درج ذیل تحریر کی جارہی ہیں۔
کینسر موت ہے
کینسر کا مطلب لازمی موت نہیں ہے۔ دہائیوں قبل یہ دعویٰ درست ہوسکتا تھا تاہم سائنس اور طبی شعبے میں جدید ترقیاتی پیشرفت کے سبب کینسر سے صحت یابی کی شرح کافی حد تک بڑھ گئی ہے۔ جنوری 2019 میں ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں 16.9 ملین افراد کینسر سے صحتیاب ہوئے جبکہ برطانیہ میں کینسر سے مکمل شفایابی کی شرح پچھلے 40 سالوں میں دوگنی ہو گئی ہے۔
کینسر متعدی ہے
یہ بھی ایک وہم ہے۔ کینسر متعدی نہیں ہے۔ کینسر میں مبتلا شخص اپنی بیماری کو دوسروں تک نہیں پھیلا سکتا۔ تاہم کچھ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں جیسے ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) اور ہیپاٹائٹس بی اور سی، خواتین کے cervix اور عام لوگوں میں جگر کے کینسر کا سبب بن سکتی ہیں۔
سیل فون کینسر کا باعث بن سکتے ہیں
آج تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سیل فون کینسر کا سبب بنتا ہے۔ یہ وہم عام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ آلات ریڈیو فریکونسی ریڈی ایشن (تابکاری لہریں) خارج کرتے ہیں جو کہ غیر آئنائزنگ تابکاری کی ایک شکل ہےجو کینسر کا سبب نہیں بن سکتا۔ تاہم آئنائزنگ تابکاری کی نمائش جیسے ایکس رے کینسر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
مصنوعی مٹھاس کینسر کا سبب ہے
آج تک معتبر ذرائع سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل پایا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ بتاتا ہے کہ یہ غلط فہمی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے بارے میں سوالات اس وقت پیدا ہوئے جب ابتدائی مطالعات سے پتہ چلا کہ سائکلیمیٹ (مصنوعی مٹھاس کا ماخذ کیمیکل) مصنوعی مٹھاس سیکرین کے ساتھ مل کر لیبز میں موجود جانوروں میں مثانے کے کینسر کا باعث بنا۔ تاہم ماہرین وضاحت کرتے ہیں کہ مزید مطالعات نے انسانوں میں کینسر کے ساتھ وابستگی کا واضح ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔
کینسر کا مرض دوبارہ ہوجاتا ہے
اس سوال کو حل کرنے کے لیے میڈیکل نیوٹریشن تھیراپی (MNT) نے کیلیفورنیا میں اورنج کوسٹ میڈیکل سنٹر میں میموریل کیئر کینسر انسٹی ٹیوٹ کے میڈیکل آنکولوجسٹ اور ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر کولن وو سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ خوش قسمتی سے ہم سب کے لیے یہ بات کہ کینسر واپس آجاتا ہے، محض وہم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کینسر کے موجودہ علاج اس حد تک ترقی کرچکے ہیں جہاں کینسر کا علاج یعنی ایسے علاج جو کینسر کو مکمل طور پر ختم کر دیں، مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔
کینسر لاعلاج ہے
یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ ڈاکٹر وو کا کہنا تھا کہ کچھ کینسر جیسے مثانوں (testicular) اور گلے (thyroid) کے کینسر میں 60% تک شفایابی کی شرح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھاتی اور پروسٹیٹ کے کینسر کی بھی شرحِ علاج 50 فیصد ہے۔