سپریم کورٹ ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد

حیران کن طور پر نام تک ظاہر نہیں کیا گیا کہ فنڈ کس نے دیا؟ معاملہ ایک ماہ میں حل کرکے رپورٹ دی جائے، قاضی فائز عیسیٰ


ویب ڈیسک November 01, 2023
(فوٹو : انٹرنیٹ)

سپریم کورٹ نے تحریک لبیک کی فارن فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے فنڈنگ کا معاملہ ایک ماہ میں حل کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ خادم رضوی کو حافظ کیوں کہہ رہے ہیں؟ آپ ایک آئینی ادارہ ہیں، یو اے ای میں رہنے والے شخص کی پاکستان میں کیسے پارٹی رجسٹر ہوتی ہے، ایک درخواست آتی ہے اور اگلے دن جماعت رجسٹرڈ ہوجاتی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں فائلوں کو پہیے لگتے ہیں کچھ کہتے ہیں اوپر سے حکم آتا ہے، بتائیں کسی قانونی جماعت کو رجسٹرڈ کرنے کا قانونی طریقہ کار کیا ہے؟ ہمیں فائلوں پر 2000 شہریوں کے شناختی کارڈ بھی نظر نہیں آرہے ابھی مکمل ریکارڈ دکھائیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کل تک کا وقت دیں تمام تفصیلات فراہم کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود تسلیم کر رہا ہے کہ ٹی ایل پی کو 15 لاکھ روپے کی فارن فنڈنگ ہوئی، اگر دس روپے بھی فارن فنڈنگ کے آجائیں تو اس کے بھی نتائج ہوتے ہیں، آپ نے لکھا جو فارن فنڈنگ ٹی ایل پی نے لی، وہ محض مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے، آپ نے 15 لاکھ کی رقم کے لیے پینٹ (مونگ پھلی) کی اصطلاح استعمال کی، کیا یہ کوئی قانونی اصطلاح ہے؟ اس وقت کے فنڈ 50 لاکھ سے کچھ زیادہ تھے، یہ تو 30 فیصد رقم بن جاتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ بیرون ملک سے جو انفرادی طور رقوم بھیجی جائیں وہ ممنوعہ نہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ درست ہے صرف کسی دوسرے ملک کی حکومت یا کمپنی سے آئے فنڈز ہی ممنوع ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ممنوع فنڈز پائے جائیں تو وہ ضبط ہی ہوں گے۔

یہ پڑھیں : فیض آباد دھرنا کیس؛ وزارت دفاع، آئی بی، پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواستیں خارج

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آج آپ الیکشن کمیشن کی نہیں ٹی ایل پی کی وکالت کر رہے ہیں، آپ کسی اور کی وکالت کر رہے ہیں تو کرتے رہیں، ہمیں لگا تھا آئینی ادارہ کہے گا ہم سے غلطی ہوئی مگر یہ تو کسی کے دفاع میں بیٹھا ہوا ہے، آپ نے انہیں کہا تھا کہ 15 لاکھ روپے بھیجنے والے کا نام بتائیں، رقم بھیجنے والے نے اگر کہا تھا کہ اس کا نام ظاہر نہیں کرنا تو وہ رقم واپس کر دیتے، پاکستانی قانون تو ایسی رقم لینے کی اجازت نہیں دیتا، تحریک لبیک کو آئی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں، ظاہر ہوتا ہے یہ فنڈز بیرون ملک سے ہی آئی، جو کرنسی تبدیل کر کے ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں بنا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ ایک ہی دن آئینی اداروں نے نظرثانی درخواستیں دائر کیں۔ اٹارنی جنرل نے جوابا کہا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ چار سال بعد نظرثانی درخواست مقرر ہوئی، بات نکلے گی تو بڑی دور تلک جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ فلاں کو جیل میں ڈال دو فلاں پارٹی پر پابندی لگا دیں، اب انتخابات آنے والے ہیں اچانک ایک پورا ماحول بن جاتا ہے یہ سب حسن اتفاق ہی ہے کیا، الیکشن کمیشن کی ٹی ایل پی سے متعلق رپورٹ کس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ڈونر کے بجائے کسی اور ڈونر نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ الیکشن ایکٹ پر عمل کیا گیا؟ آئینی ادارہ تو کسی اور کا دفاع کر رہا ہے، ٹی ایل پی نے 33 فیصد آمدن کا ذریعہ بھی نہیں بتایا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں الیکشن کمیشن کو ٹی ایل پی کے اثاثوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کیا کہ الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی تشکیل دے کر عدالت کو دھوکا دینے کی کوشش کی، اگر ہم الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دیں تو آپ کو اچھا لگے گا؟ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیں، جن کی تحقیقات ہونی تھیں ان کی وکالت الیکشن کمیشن کے وکیل کر رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہر سال ہر جماعت کی فنڈنگ کی تحقیقات ہوتی ہیں؟ الیکشن کمیشن کی اپنی شفافیت ہوگی تو ہی شفاف انتخابات کروا سکے گا اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انشاءاللہ شفاف انتخابات کرائیں گے۔

بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹی ایل کی فارن فنڈنگ سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے معاملہ ایک ماہ میں حل کرنے کا حکم جاری کردیا۔

چیف جسٹس نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ الیکشن کمیشن ٹی ایل پی کی فنڈنگ کا معاملہ ایکشن ایکٹ اور آئین پاکستان کے مطابق دیکھے اور یہ معاملہ انتخابات سے قبل حل کریں، حیران کن طور پر یہ معلوم ہی نہیں کہ فنڈنگ کس نے دی؟ معاملہ حل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں