یہ بات ٹھیک ہے کہ پولیس میں پیسوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں پشاور ہائیکورٹ
میرے گھر میں 5 پولیس اہلکاروں میں سے 4 پیسوں پر بھرتی ہوئے، آپس میں صلح کرلیں، ورنہ عدالت فیصلہ کرے گی، چیف جسٹس
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے پولیس میں پیسوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں۔
ایس پی ٹریننگ کے ریٹائرڈ ایس آئی پر تشدد کیس کی سماعت چیف جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے کی، جس میں ایس پی ٹریننگ، ریٹائرڈ ایس آئی اور ان کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت ایس پی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل پر بے بنیاد ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس نے تشدد نہیں کیا۔
ریٹائرڈ ایس آئی کے وکیل نے عدالت کو اپنے دلائل میں بتایا کہ میرے مؤکل کو گاڑی میں بٹھا کر ایس پی ٹریننگ نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ دونوں کے درمیان تنازع کس بات پر چل رہا ہے؟۔ جس پر ریٹائرڈ ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی ٹریننگ اور دیگر افسران نے کروڑوں روپوں کا غبن کیا ہے۔میرے پاس ثبوت ہیں کہ بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ بھرتیاں پیسوں پر کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے ریمارکس دیے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ پولیس میں پیسوں پر بھرتیاں ہوتی ہے۔ میرے گھر میں بھی 5 پولیس اہل کاروں میں سے 4 پیسوں پر بھرتی ہوئے ہیں۔ اس کو اپنا حصہ دے دیتے تو مسئلہ ختم ہوتا، ممکن ہے کہ اس نے آپ سے حصہ مانگا ہو تو اس پر آپ نے اسے مارا۔
ایس پی ٹریننگ نے بتایا کہ نہ کوئی غبن ہوا ہے اور نہ ہی ہم نے تشدد کیا ہے، جس پر ریٹائرڈ ایس آئی نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ دیکھ لیں۔ میرے جسم پر نشانات بھی دیکھ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو موقع دیتے ہیں اس معاملے کو خود حل کریں۔ دونوں نے باہمی اشتراک سے صلح نہیں کی تو پھر عدالت فیصلہ کرے گی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔