’ففٹی ففٹی‘ پروگرام میرا نہیں بلکہ زیبا شہناز کا تھا بشریٰ انصاری
جوانی میں بھارتی فلموں میں کام کرنے کی پیش کش نہیں ہوئی کچھ سال پہلے پیش کش ہوئی تھی، اداکارہ
معروف فن کارہ بشریٰ انصاری نے کہا کہ ہمارے گھر میں تعلیمی ماحول تھا مذہب کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے والد انہیں بتاتے تھے کہ کیا اچھا ہے اور کیا غلط ہے جس وجہ سے انہوں نے آرٹ میں نام کمایا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سولہویں عالمی اردو کانفرنس میں پروگرام 'بشری انصاری سے ملاقات' میں میزبان یاسر حسین کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ناسمجھی میں گانے گاتی تھی لیکن جب انہیں سمجھ آئی تو گانا چھوڑ دیا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے گانے سن کر لوگ محظوظ نہیں ہوں گے اس لیے البم کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس موقع پر بشریٰ انصاری نے نور جہان کا ایک گانا گایا اور حاضرین نے تالیں بجا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
بشریٰ انصاری نے عوام سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی گانے سنیں، انہوں نے بتایا کہ جوانی میں انہیں بھارتی فلموں میں کام کرنے کی پیش کش نہیں ہوئی کچھ سال پہلے پیش کش ہوئی مگر پلوامہ میں بھارت نے خود ہی پٹاخہ چھوڑ دیا جس سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن میں ٹاک شو نہ دیکھنے کے باوجود دیکھنے پڑتے ہیں۔ ان کے والد اصول پسند صحافی تھے، ان سے زبردستی سافٹ وئیر اپ ڈیٹ نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ اسی بنیاد پر ان کو اخبارات سے اکثر نکال دیا جاتا لیکن اس سے وہ کبھی پریشان نہیں ہوئے، اگر اس زمانے میں وہ زندہ ہوتے تو روز مرتے۔
اداکارہ نے کہا کہ ان کے بچپن میں بھی تہوار ہوتے تھے مگر اب ڈرامہ ہو رہا ہے، پہلے اور اب کے فین میں بہت فرق ہے اب فین شپ میں بدتمیزی بھی آگئی ہے۔
بشری انصاری نے کہا کہ ڈرامہ سیریل وہ ابھی بھی کرتی ہوں، فلم انڈسٹری میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت بہتر ہو گا، مریم اورنگزیب نے اس پر اچھا کام کیا اس سے بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چار سال سے نہیں لکھا لیکن اب کچھ لکھیں گی، 'ففٹی ففٹی' ان کا پروگرام نہیں بلکہ زیبا شہناز کا تھا۔