آئی ٹین میں موجود خواتین کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالے کرنیکا حکم
میں اس حوالے سے تفصیلی آرڈر پاس کروں گا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو آئی ٹین میں موجود خواتین کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کے پیش نا ہونے کے باعث برہمی کا اظہار کیا اور فوری پیش ہونے کا حکم دیا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ایمان مزاری اور عطا اللہ کنڈی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ تحریری طور پر بتائیں کہ کس کس خاتون کو گرفتار کیا گیا، ویمن پولیس اسٹیشن میں کتنی خواتین تھیں اور کتنی گئیں وہ رپورٹ دیں اور مناسب یہی ہے آپ پٹشنر کے وکلا کو مطمئن کریں، جتنے آپ کی حراست میں تھے کتنے آپ نے رہا کیے سب کی رپورٹ دیں۔
وکیل درخواست گزار عطا اللہ کنڈی نے موقف دیا کہ ایس پی نے ہمارے وکلا کو کہا ان لوگوں کو کہیں بسیں باہر کھڑی ہیں یہ واپس چلے جائیں اور اس معاملے پر ہماری ان سے تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی، ایس ایس پی نے ہمیں کہا کہ ہمیں وزیراعظم کی ہدایت ہے ان کو واپس بلوچستان بھیجیں۔
مزید پڑھیں: حکومت اور بلوچ یکجہتی کونسل کے درمیان مذاکرات کے بعد گرفتار افراد کی رہائی
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروا دیا، کچھ اسلام آباد میں طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بیٹھا دیا، بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کر دیا گیا، معاملے کو دیکھ کر ڈرائیورز نے بھی بسیں چلانے سے انکار کر دیا۔
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ اس دوران آئی جی اسلام آباد تھانے پہنچے اور انہوں نے بھی کہا کسی طرح ان کو یہاں سے بھیجیں، اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کر دیے اور صبح پانچ بجے پولیس نے بیان جاری کیا ہم نے ان کو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔
سینیئر صحافی نے کہا کل عدالت کو بتایا گیا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا گیا، تین وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس کی کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ کسی بھی خاتون کو رہا نہیں کیا گیا، میں بھی ویمن پولیس اسٹیشن چلا گیا جہاں خواتین بچیوں کو گھسیٹ کر لا رہی تھیں، میرا موبائل چھین لیا اور وہاں موجود پولیس نے مجھ سے بھی بدتمیزی کی۔
مزید پڑھیں: بلوچ لانگ مارچ شرکاء کی گرفتاری، آئی جی اسلام آباد سے کل تک رپورٹ طلب
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا یہ طریقہ نہیں ہے، ایک عام آدمی اگر زیادتی بھی کر لے تو پبلک آفس ہولڈر کو دل بڑا کرنا ہے، ہم یہاں روزانہ فیصلے کر رہے ہیں جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے تو باہر جا کر ہمارے خلاف بات کرتا ہے۔ پبلک آفس ہولڈر کو تدبر کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے لیکن وہ نہیں کر پا رہے۔ سینیئر صحافی کے ساتھ ایسا رویہ، آخر ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے اسٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں جو کام آپ کے کرنے والے ہیں وہ نہیں کرتے۔ ہمارے اپنے اسٹاف کے کسی کے موبائل، کسی کا پرس چھینا گیا۔
آئی جی نے کہا کہ میں ڈیٹا عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا ڈیٹا کچھ نہیں ہوتا میں تجربے کی بنیاد پر آپ کو بتا رہا ہوں جو میں خود دیکھ سن رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اس حوالے سے تفصیلی آرڈر پاس کروں گا، آئندہ ہفتے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کیس کی سماعت کریں گے۔