وکی لیکس کو ہیکنگ ٹولز دینے والے سابق سی آئی اے اہلکار کو 40 سال قید

جوشوا شولٹ نے سی آئی اے کے ایلیٹ ہیکنگ یونٹ میں 2012 سے 2016 تک کام کیا اور سائبر ٹولز چرا کر وکی لیکس کو دیئے


ویب ڈیسک February 02, 2024
امریکا میں وکی لیکس کو ہیکنگ ٹولز فراہم کرنے پر سی آئی اے کے سابق ملازم کو 40 سال قید کی سزا سنادی گئی، فوٹو: فائل

وکی لیکس کو ہیکنگ ٹولز چُرا کر فراہم کرنے والے سابق سی آئی اے کوڈر کو 40 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے کے سابق کوڈر جوشوا شولٹ پر خاموشی سے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے نظام کو توڑنے کے لیے استعمال ہونے والے سی آئی اے کے سائبر ٹولز، وکی لیکس کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔

اس کیس کی آج ہونے والی سماعت میں 35 سالہ جوشوا شولٹ کو 2022 میں جاسوسی اور دیگر الزامات جسے سی آئی اے نے "ڈیجیٹل پرل ہاربر" کہا تھا میں قصوروار پایا گیا۔

یہ انٹیلی جنس ایجنسی کی تاریخ میں ڈیٹا کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔

سماعت میں امریکی پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ وکی لیکس نے سائفر کوڈز کو دنیا بھر میں غیر ملکی انٹیلی جنس گروپس، ہیکرز اور سائبر بھتہ خوروں کے استعمال کے لیے بآسانی دستیاب کردیا تھا۔

امریکی اٹارنی ڈیمیان ولیمز نے کہا کہ جوشوا شولٹ نے امریکی تاریخ میں انٹیلی جنس جیسے حساس معاملے کے انتہائی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرکے اپنے ملک کے ساتھ غداری کی اور قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

بیانات اور شواہد کی روشنی میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمین نے جوشوا شولٹ کو جاسوسی، کمپیوٹر ہیکنگ، توہین عدالت، ایف بی آئی کو جھوٹے بیان دینے اور چائلڈ پورنوگرافی کے جرم میں 40 سال قید کی سزا سنائی۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق جوشوا شولٹ نے سی آئی اے کے ایلیٹ ہیکنگ یونٹ میں 2012 سے 2016 تک کام کیا اور اس دوران خاموشی سے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے نظام کو توڑنے کے لیے استعمال ہونے والے سائبر ٹولز چرالیے تھے۔

جوشوا شولٹ نے بعد ازاں ملازمت چھوڑ دی تھی اور چرائے گئے یہ ہیکنگ ٹولز، وکی لیکس کو دے دیئے تھے جس نے مارچ 2017 میں خفیہ ڈیٹا شائع کرنا شروع کیا۔

خیال رہے کہ وکی لیکس کی بنیاد جولین اسانج نے رکھی تھی اور ملکوں کے درمیان ہونے والے اہم و حساس کاغذات، مکالمے اور گفتگو کو لیک کیا تھا۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج اس وقت برطانیہ میں قید ہیں اور وہ امریکا کو اپنی حوالگی کے خلاف کیس لڑ رہے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں