ایک مضبوط مستحکم حکومت وقت کی ضرورت

نجانے کیوں مسلم لیگ ن اس بات کو نہیں سمجھ رہی کہ حکومت بنا کر وہ بہت گھاٹے میں رہے گی


عبد الحمید February 23, 2024
[email protected]

یہ 2008ء کے انتخابات سے کوئی20دن پہلے کی بات ہے۔پرویز مشرف صدر اور محمد میاں سومرو عبوری وزیرِ اعظم تھے۔میں ان دنوں وزارتِ مواصلات میں تعینات تھا۔صبح ساڑھے دس بجے کے قریب فون پر حکم دیا گیا کہ میں اگلے آدھے گھنٹے میں عبوری وزیرِ اعظم کی پرائیویٹ رہائش گاہ F-7 اسلام آباد پہنچ جاؤں۔

میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھے کیوں طلب کیا گیا ہے کیونکہ میری تو جناب محمد میاں سومرو سے کوئی خاص شناسائی نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ یہ جناب سومرو کے اپنے آرڈرز ہیں۔اس سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔خیر میں ایڈریس لے کر کوئی بیس منٹ میں وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔یہ رہائش گاہ دراصل ان کے سسر محترم کی ہے۔میرے بھائی کو بھی شاید بلا لیا گیا تھا کیونکہ وہ بھی کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گئے۔ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا۔

چند لمحوں کے بعد جناب وزیرِ اعظم گھر تشریف لائے۔پتہ چلا کہ وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے تھے۔گھر پہنچ کر وہ سیدھے اپنی فیملی کے پاس چلے گئے لیکن کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہمارے پاس آ گئے۔ہماری خیر خیریت دریافت کی ۔ہم نے عمرے کی ادائیگی کی مبارک باد دی۔میں نے علیک سلیک کے بعد عرض کی کہ مجھے آپ کے ہاں پہنچنے کا حکم ملا تھا اس لیے حاضر ہوں۔

کہنے لگے میں چند دن عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھا تو وہاں میرے رفقا نے آپ کے بارے میں بتایا،اس لیے ملنا چاہتا تھا۔پھر کہنے لگے کہ میری وزارتِ عظمیٰ ایک مہینے اور ہے۔آپ کو کوئی بھی پوسٹنگ چاہیے تو میں ابھی آرڈر کروا دیتا ہوں۔میں نے بصد ادب عرض کیا کہ اگلے گریڈ میں میری ترقی کے لیے پروموشن بورڈ ہونے والا ہے۔

مجھے امید ہے کہ میرا پروموشن ہو جائے گا،اس لیے چند ہی ہفتوں کے بعد اگلے گریڈ میں ایک دفعہ پھر نئی پوسٹنگ کا مرحلہ درپیش ہو گا اور اس وقت آپ بطور وزیرِ اعظم موجود نہیں ہوں گے۔آپ کی بہت مہربانی۔آپ نے بہت شفقت فرمائی۔پروموشن سے پہلے کے ان چند ہفتوں کے لیے مجھے میری موجودہ پوسٹنگ پر ہی رہنے دیا جائے۔انھوں نے ایک دفعہ پھر اصرار کیا کہ میں کسی پوسٹنگ کا بتاؤں لیکن میں نے پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موجودہ جگہ رہنے دیا جائے۔

مجھ سے بات کرنے کے بعد وہ میرے بھائی کے ساتھ خوش گپیوں میں لگ گئے۔آنے والے انتخابات زیرِ بحث تھے۔جناب سومرو میرے بھائی کو بتا رہے تھے کہ جہاز سے اترتے ہی سرکاری اداروں کی طرف سے انھیں انتخابات کے انتظامات اور سرویز کی بنیاد پر ممکنہ نتائج پر بریف کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے تیس سے پینتیس امیدوار کامیاب ہوں گے۔

جب انتخابات کے نتائج آئے تو غالباً اس سیاسی جماعت کی نشستیں 80کے قریب تھیں۔آپ دیکھیں کہ سرکاری اندازے اور سروے کتنے حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔1970کے انتخابات میں بھی ہائی کمانڈ کو ایسے ہی غلط اندازوں سے گمراہ کیاگیا تھا۔غلط اطلاعات غلط فیصلوں کا موجب بنتی ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اپنے منتخب ارکان، قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اس جماعت میں شامل ہونے کا کہا ہے۔اتحاد کی تقریب ایک پریس کانفرنس کی شکل میں تھی۔تقریب میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ جناب راجہ ناصر عباس اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا بھی تھے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ پارٹی کی مخصوص نشستیں اسے مل جائیں۔

الیکشن ایکٹ کے مطابق تو یہ نشستیں ملنی مشکل ہیں کیونکہ ان کے لیے کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ 22دسمبر تھی،بہر حال اگر مخصوص نشستیں مل جائیں تو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ممبران کی تعداد 120سے شاید اوپر ہو جائے گی۔

پہلے یہ نظر آ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے منتخب ارکان مجلسِ وحدتِ مسلمین،ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہوں گے لیکن پھر ایسا نہیں ہوا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہوا۔سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی ارکان کی شمولیت کا سبب خلیج تعاون کونسل کے ایک بااثر اور اہم رکن ملک کے وفد کا دورہٗ پاکستان ہے۔

پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ 8 فروری کے انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ پی پی پی کو ہونے جا رہا ہے،وہی ہوا،ن لیگ اور پی پی پی معاہدے میں پی پی پی نے عمدہ سیاست دکھائی۔ یہ پارٹی صدر کے علاوہ پنجاب کی گورنری اور سینیٹ کے چیئرمین کا منصبِ جلیلہ لے اڑی۔ چونکہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو ملی ہیں اس لیے پی ٹی آئی کو مصلحت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر ن لیگ یا پی پی پی میں سے کسی ایک پارٹی سے الحاق کر کے حکومت بنانی چاہیے تھی۔

اس طرح ملک کو ایک مستحکم، مضبوط اور مقبولِ عام حکومت ملتی،ریاست مضبوط ہوتی،پھلتی پھولتی اور عوام سکھ کا سانس لیتے۔ پی پی پی کی یہ شدید خواہش بھی تھی۔ لیکن جناب عمران خان نے ایک اچھا موقع جانے دیا۔پی ٹی آئی ایک بہت مقبول جماعت ہے اور اس کی وجہ جناب عمران خان کا سحر ہے لیکن سیاسی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پی ٹی آئی میں اہم اچھے سیاسی فیصلے نہیں ہو رہے۔اگر یہ مقبول پارٹی دونوں میں سے کسی ایک بڑی پارٹی سے ملکر حکومت بنا لیتی تو دوسری پارٹی حکومت میں جونیئر رکن ہوتی اور پی ٹی آئی حکومتی ڈرائیونگ سیٹ میں بیٹھ کر مستقبل کی بساط اپنی مرضی سے ترتیب دے سکتی تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے اندر اچھا ماحول بنتا،،جمہوریت مضبوط ہوتی۔

جناب عمران خان کا سیاسی پارٹیوں سے بات نہ کرنا اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات پر اصرار کرنا غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس سے پہلے جمہوری قدم اٹھا لیا جائے۔پی پی پی صرف اس صورت میں اپنی بارگیننگ پوزیشن کھو سکتی ہے جب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن مل جائیں،بظاہر یہ ایک انہونی بات ہے لیکن سیاست تو ہے ہی ممکنات کا کھیل۔

ن لیگ نے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ضروری حمایت حاصل کر لی ہے۔نجانے کیوں مسلم لیگ ن اس بات کو نہیں سمجھ رہی کہ حکومت بنا کر وہ بہت گھاٹے میں رہے گی۔ اندیشہ ہے کہ پارٹی غیر مقبول ہوتے ہوتے آیندہ کبھی نہ اُٹھ سکے۔

چند دہائیاں پہلے تک پی پی پی چوٹی کی پارٹی تھی اور پھر غیر مقبول ہوتے ہوتے پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں چند سیٹوں تک محدود ہو گئی ہے۔جناب شہباز شریف کی حکومت کو لا متناہی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔جون تک چوبیس ارب ڈالر کی واپسی اور تین سال میں ستر ارب سے زائد کی قرض ادائیگی سر پر کھڑی ہے۔

مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے۔9کروڑ سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔آئی ایم ایف سے اگلی قسط لینا اور معیشت کو سہارا دینا بہت بڑا چیلنج ہے۔ سیاسی طور پر مخلوط حکومتیں ضروری،مشکل اور غیر مقبول فیصلے نہیں کر سکتیں۔ دیکھیں جناب شہباز شریف کون سی جادو کی چھڑی سے حالات بہتر کرتے ہیں یا ایک مرتبہ پھر نا کام حکومتی کارکردگی دہراتے ہیں۔اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔