ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے کہ جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے۔
سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالتی معاون خالد جاوید خان نے عدالت میں دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے، جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے۔ کیا کبھی اسے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے، اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔
عدالتی معاون نے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس آفتاب نے تو کہہ دیا ذوالفقار علی بھٹو اچھے مسلمان نہیں تھے۔ سپریم کورٹ نے کہا اس میں کچھ غلط نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت نے یہ بھی کہا؟ یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا۔ ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔ عدالتی معاون خالد جاوید خان نے بتایا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی۔ بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بینچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9 رکنی بینچ نے کیس سنا، بعد میں 7 رہ گئے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بینچ نے شروع کیا پھر 6 رہ گئے تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے کیس سکتے تھے؟۔
عدالت معاون نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ آج ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں۔ اُس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے۔ لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ اُس وقت ملک میں بدترین مارشل لا تھا۔ اُس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ میرے والدین کو بھی فوجی عدالتی عدالت سے سزائیں دی گئیں۔ اس وقت ساز باز کرکے چیف جسٹس پاکستان بنے۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اُس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دباؤ تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس کو سن رہے ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہم کسی عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ کیا ہم ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیں؟۔ ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے۔ ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے، ہمیں وہ مواد دکھا دیں۔ مارشل لا نافذ تھا، یہ کافی نہیں ہے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا۔ میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے۔ ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔
عدالتی معاون نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں کہا گیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر نے ریفرنس میں محض ایک یہ سوال پوچھا ہے کہ بھٹو کو سزا کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے یا نہیں۔دوسرا یہ کہ بھٹو کو سزا کا فیصلہ کسی تعصب کی بنیاد پر دیا گیا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے۔ یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔
عدالتی معاون نے کہا کہ یقیناً کچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ مشکل مگر یہ ہے کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں کون سے ختم کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتاہوں کہ ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے۔ عدالتی معاون نے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ اس کے بعد اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کاکہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا اس لیے انصاف کا خون ہوا، جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ جی ، میرا یہی مؤقف ہے۔ انہوں نے نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کتاب میں انہوں نے لکھا کہ جسٹس مشتاق حسین چیف جسٹس پنجاب اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ مجھے ملنے آئے۔ دونوں نے مجھے اپیل میں بیٹھنے کا کہا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ اس وقت پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کیخلاف تعصب کی درخواست سن رہے تھے۔
عدالتی معاون نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ خود فیصلہ دے کر سپریم کورٹ کے جج کو کہہ رہاہے آپ اس کے خلاف اپیل سنو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو چیف جسٹس ہائیکورٹ کا بہت نامناسب اقدام تھا۔ یہ تو نسیم حسن شاہ کے بطور ایڈہاک جج بیٹھنے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ عدالتی معاون نے بتایا کہ جی، یہ معاملہ تب سامنے آجاتا تو لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ صرف اسی بنیاد پر کالعدم ہو جاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے سامنے دو ہی سوال ہوتے ہیں جرم ہوا یا نہیں۔ جج آپس میں بھی یہی طے کرتے ہیں کہ جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ سزائے موت سے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ ، جس پر عدالتی معاون نے جواب دیا کہ سزائے موت تب ہی دی جانی چاہیے جب تمام جج متفق ہوں۔
عدالتی معاون نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا ہم سے تو کسی نے نہیں کہا یوں کرو۔ ساتھ ہی کہا، ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں۔ پھر کہا، ہو سکتا ہے وہ ہم سے بھی ان ڈائریکٹ کہتے ہوں یوں کر لیں تو بہتر ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ ان ڈائریکٹ کہنا کیا ہوتا ہے؟ ، جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ میں تو ان کی باتیں ہی پوائنٹ آؤٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے نسیم حسن شاہ کے افتخار احمد کو انٹرویو کا بھی حوالہ دیا۔ عدالتی معاون نے بتایا کہ انہوں نے انٹرویو میں مانا چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہو گئی تھی۔ نسیم حسن شاہ نے کہا سزا کم ہو سکتی تھی مگر بھٹو کے وکیل نے ناراض کر دیا تھا۔کیا سزائے موت کے کیس میں جج کو وکیل کے طرز عمل پر سزا سنانی چاہیے؟ ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل کے کنڈکٹ کی سزا کلائنٹ کو نہیں دی جا سکتی۔
بعد ازاں عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔