بھارت میں ارکان اسمبلی کو رشوت مقدمات میں حاصل استثنیٰ ختم کردیا گیا

1993 میں نرسمہا راؤ کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں رشوت چلی تھی جس پر ارکان اسمبلی کو استثنیٰ دیکر بچایا گیا تھا


ویب ڈیسک March 04, 2024
1993 نرسمہا راؤ کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں رشوت چلی تھی جس پر ارکان اسمبلی کو استثنیٰ دیکر بچیا گیا تھا، فوٹو: فائل

بھارت میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں ارکان اسمبلی کو رشوت لینے پر فوجداری کارروائی سے استثنیٰ ختم کر دیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جھاڑکھنڈ مکتی مورچہ نامی جماعت کے ارکان اسمبلی پر 1993 میں نرسمہا راؤ حکومت کی حمایت کے لیے رشوت لینے کا الزام تھا اور معاملہ عدالت تک پہنچا تھا۔

اس کیس کی جانچ کے دوران عدالت نے 1998 میں نرسمہا راؤ بنام ریاست مقدمے میں ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ میں تقریر یا ووٹ دینے کے بدلے رشوت لینے کے الزام پر تحقیقات سے استثنیٰ قرار دیدیا تھا۔

تاہم آج بھارتی سپریم کورٹ کے 7 ججوں پر مشتمل بنچ نے 1998 کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ارکان اسمبلی کی بدعنوانی اور رشوت لینا بھارتی پارلیمانی جمہوریت کو تباہ کر دیتی ہے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ رشوت ستانی کو پارلیمانی مراعات سے تحفظ حاصل نہیں۔ 1998 کے فیصلے کی تشریح آئین کے آرٹیکل 105، 194 کے خلاف ہے۔

کیس کا پس منظر


جے ایم ایم کے رکن اور جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ شیبو سورین اور پارٹی کے دیگر 4 اراکان اسمبلی نے 1993 میں نرسمہا راؤ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دینے کے لیے رشوت لی تھی جس کے باعث نرسمہا راؤ کی حکومت بچ گئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی اپوزیشن جماعت نے ان چاروں ارکان اسمبلی پر رشوت لینے کا الزام عائد کیا تھا جس پر سی بی آئی نے سورین اور جے ایم ایم کے چار دیگر لوک سبھا ممبران پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

تاہم 1998 میں اُس وقت کی سپریم کورٹ کے بنچ نے ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کو مقننہ میں تقریر کرنے یا ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے پر آئین کے آرٹیکل 105(2) اور آرٹیکل 194(2) کے تحت استثنیٰ دیا تھا۔

بعد ازاں جھارکھنڈ میں 2012 میں ہونے والے راجیہ سبھا انتخابات میں ایک امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے کا معاملہ اُٹھا اور رکن اسمبلی سیتا سورین نے 1998 کے فیصلے کے تحت استثنیٰ حاصل کرنے کی استدعا کی۔

تاہم 2014 میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ووٹ کے رشوت لینے والے رکن اسمبلی کے خلاف درج فوجداری مقدمے میں استثنیٰ دینے سے انکار کردیا۔ جس پر رکن اسمبلی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

7 مارچ 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی پینل نے اٹھائے گئے سوال کے اہم مضمرات کی وجہ سے کیس کو بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا۔

عدالت نے نوٹ کیا تھا کہ غیر یقینی صورتحال اور عوامی اہمیت کے پیش نظر اس کیس پر بڑی بینچ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ اس کیس کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ بنچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اے ایس بوپنا، ایم ایم سندریش، پی ایس نرسمہا، جے بی پاردی والا، سنجے کمار، اور منوج مشرا شامل تھے۔

آج محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اراکان اسمبلی کو پارلیمنٹ میں کسی کو ووٹ دینے یا کسی حوالے سے تقریر کرنے کے لیے رشوت لینے پر فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں