بھارت میں متنازع شہریت قانون کے نفاذ کے خلاف احتجاج

آسام اور تامل ناڈو میں شہریوں نے کینڈل مارچ کیا اور متنازع قانون کے خلاف نعرے لگائے


ویب ڈیسک March 12, 2024
بھارت میں 2019 میں بھی اس متنازع قانون کے خلاف بدترین احتجاج ہوا تھا—فوٹو: رائٹرز

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی نافذ کیے گئے متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ پیر کو قانون کے نفاذ کے بعد بھارت کی مشرقی ریاست آسام اور جنوبی ریاست تامل ناڈو میں احتجاج شروع ہوگیا تاہم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور کسی قسم کے نقصان کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔

ریاست تامل ناڈو کے دارالحکومت چنائی میں مظاہرین نے کینڈل لائٹ مارچ کیا اور متنازع شہریت قانون کے خلاف نعرے لگائے۔

ادھر آسام میں مظاہرین نے قانون کی کاپیاں جلائیں اور رات گئے احتجاج کے دوران نعرے لگائے اور مقامی اپوزیشن جماعتوں نے ریاست بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے۔

آسام میں سی اے اے کی مخالفت کرنے والے افراد کو خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہوسکتی ہے جہاں سرحد پر دہائیوں سے اس حوالے سے تنازع چل رہا ہے۔

کیرالا کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے بھی اس قانون کے خلاف ریاست بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کیرالا کے وزیراعلیٰ پینارائی ویجایان نے کہا کہ ریاست کیرالا اس فرقہ پرست اور تقسیم کرنے والے قانون کے خلاف متحد ہو کر کھڑی ہوگی۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں کسی قسم کی کشیدگی، غیرقانونی اجتماع روکنے کے لیے حکام نے الرٹ ہوگئے ہیں اور حساس علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے کیونکہ 2019 میں دہلی میں خونریز احتجاج ہوا تھا۔

خیال رہے کہ مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے متنازع شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) پیر کو نافذ کر دیا تھا، جس کا مقصد مسلم اکثریتی جنوبی ایشائی ممالک سے آنے والے غیرمسلم مہاجرین کو شہریت کے حصول میں آسانی پیدا کرنا ہے۔

مذکورہ قانون کے خلاف 2019 میں بدترین احتجاج ہوا تھا اور مذہبی فسادات برپا ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سےاس قانون پر عمل درآمد میں تاخیر کردی گئی تھی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں