وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ جعلی خبروں اور ہتک عزت سے متعلق نیا قانون تیار ہے صحافتی تنظیموں کو کسی شق پر اعتراض ہے تو رجوع کرلیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیا ہتک عزت قانون نہ صحافی کے خلاف ہے نہ حکومت کے حق میں ہے،
کہا جارہا ہے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگنے لگی ہے ایک قانون پنجاب اسمبلی میں کل پیش ہوگیا ہے کل اس پر میٹنگ ہوئی آج بھی ایک میٹنگ ہوگی کہا گیا کہ یہ ایک کالا قانون ہے یہ بل کیوں لایا جارہا ہے اصل میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، ڈالر کمانا اور چہک چہک کر جھوٹ بولنا اس لیے ایک نیا ڈیفامیشن لا آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پرانا ڈیفامیشن لا ایک نوٹس سے آگے نہیں جاسکا لیکن اس نئے لا میں پولیس جیل گرفتاری کا کوئی کردار نہیں ہے یہ ایک سول سوٹ ہے جو ایک ٹریبونل کے ذریعے اپنی گزارش لے کر جائے گا اور ٹریبونل کا جج نوٹس جاری کرے گا۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جس فورم کے اوپر ٹویٹ یا پوسٹ کی گئی ہوگی اس پر نوٹس ہوگا، ٹریبونل کے جج صاحب کہیں گے کہ اکیس دن میں اپنی مرضی کی تین پیشیوں کی تاریخیں لے لیں، اگر کوئی دفاع کرنا چاہتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے میں دفاع کرنا چاہتا ہوں اگر وہ ثابت ہوجاتا ہے تو تین ملین ڈگری جاری ہوگی اسے ہرجانہ دینا ہوگا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سات دن اس کو دیئے جائیں گے کہ اگر وہ کرمنل سائیڈ پر جانا چاہتا ہے تو جاسکتا ہے، ایک سو اسی دنوں میں کیس کو مکمل کرنا ہوگا، ملک میں مروجہ قوانین میں ٹریبونل کے قوانین ہیں، ہائی کورٹ کے جج کو ٹریبونل کا درجہ دیا جائے گا۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت ہے کہ اتوار تک ہم اس کی منظوری روک رہے ہیں اتوار تک صحافتی تنظیمیں ہمیں لکھ کر اس شق کے بارے میں آگاہ کریں جس پر اعتراض ہو اور وہ ہم سے گفتگو کرسکتی ہیں، ہم اس کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتے ہم لوگوں کی پگڑیاں نہیں اچھالنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت سے خبریں چلتی ہیں لیکن باہر کے ممالک میں نہیں چلتیں وہاں پر قوانین مضبوط ہیں، جن کا کام ہی یہی ہے کہ چہک چہک کر ڈالر کمانے ہیں ان لوگوں کے لئے مسائل ہیں یہ مسائل عام صحافیوں کے لیے نہیں ہوسکتے ورکنگ صحافی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جو جھوٹ بول رہا ہے ایجنڈا بیس ہے صرف اسی کو مسئلہ ہے، وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ ہم تمام صحافی اداروں کے ساتھ بیٹھ کر اس پر بات کرنے کو تیار ہیں اظہار رائے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے نہ ہوگی لیکن اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
عظمی بخاری نے کہا کہ سوشل میڈیا سے کوئی ڈرا ہوا نہیں ہے سوشل میڈیا کے الزامات پر ضرور اعتراض ہے سوشل میڈیا کو تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلنا ہوگا جیسا کہ پورے ملک کے اندر مروجہ قانون ہیں اور وہی طریقہ یہاں پر اختیار کیا گیا ہے،جج صاحب کو دن میں صرف دو کیس سننے ہوں گے، ججز کے پاس تین تین سو کیسز ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کیسز کو سن ہی نہیں پاتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے میں وزیراعلیٰ کو سوشل میڈیا سے بچانا چاہتی ہوں ایسا نہیں ہے بس توہین کرنے کی اجازت کیسے دی جائے گی، وہ جو صحافی کا لفظ استعمال کررہے ہیں وہ صحافی نہیں ہیں، اس میں پہلا کیس میں لے کر جاؤں گی جس میں میری بہن کے حوالے سے غلط بکواس کی گئی، یہ لاء ہ صحافی کے خلاف ہے نہ حکومت کے حق میں ہے، اگر اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور تھپڑ مارا جاتا ہے وہ بھی اس میں جاسکتے ہیں اور میں ساتھ کھڑی ہوں گی۔