پٹرول کا حالیہ بحران۔۔۔ کیا ذمہ داروں کو سزا ملے گی؟؟

احسن کامرے  جمعـء 23 جنوری 2015
ایکسپریس فورم میں ایک فکرانگیز مذاکرہ کی رپورٹ۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

ایکسپریس فورم میں ایک فکرانگیز مذاکرہ کی رپورٹ۔ فوٹو: ظہور الحق/ایکسپریس

پٹرول کے حالیہ بحرا ن نے حکومتی گڈگورننس کے دعووں کا پول کھول کے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ آنے والے پٹرول کے اس بحران کی وجہ سے عوام کوایک بار پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ایٹمی طاقت کے مردوخواتین کو قطاروں میں کھڑا ہوکر پٹرول لینے کی وجہ سے جگ ہنسائی کا موقع ملاجبکہ حکومت ابھی تک اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔

’’پٹرول کے حالیہ بحران‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سول سوسائٹی کے نمائندوں، پٹرولیم و سی این جی ڈیلرز اور ماہر اقتصادیات نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگونذر قارئین ہے۔

شاہد ریاض گوندل (مشیر وزیراعلیٰ پنجاب برائے انرجی)

حالیہ بحران سے عوام کی دل آزاری ہوئی ہے ،حکومت نے اس بحران کو چیلنج کی طرح لیا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھی کوئی مشکل صورتحال بنتی ہے تو ہم دوسرے معاشروں کے ساتھ اپنا موازنہ شروع کردیتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے اور وہ اپنی ذاتی زندگی کا بھی دوسروں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔اگر اس دھرتی کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں سیلف گورننس کرنے کا موقع بہت کم ملا ہے، برطانیہ نے جب ہمیں آزادی دی تو چرچل کاہمارے بارے میں خیال یہ تھا کہ ابھی ہماری سیلف گورننس کی تربیت نہیں ہوئی ہے۔

میرے نزدیک ترقی یافتہ ممالک میں جو بھی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے وہ یہاں درآمد کرلی جاتی ہے لیکن قوموں کی سوچ صدیوں میں تبدیل ہوتی ہے لہٰذاہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ہم سیلف گورننس اور ذاتی تنقید کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں،سول سوسائٹی، ڈیلرز ایسوسی ایشن وغیرہ کو اپنی بات کرنے کا حق ہی نہیں ہے لیکن خوش قسمتی سے ہمارے سسٹم میں سب کو آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے۔

برطانیہ نے دنیا پر حکومت کی اورہر خطے کے لحاظ سے وہاں الگ نظام بنایا، ہمیں جو نظام ملا اس میں فی الحال اختیارات کا وہ طریقہ کار نہیں ہے جو برطانیہ، امریکہ یا جرمنی میں ہوتا ہے لہٰذا جب ہمارے ہاں ویسا سسٹم بن جائے گا تو پھر یہاں بھی غلطی پر خوداستعفیٰ دینے کا عمل شروع ہوجائے گاتاہم ابھی ہم وہاں تک نہیں پہنچے مگر ہماری منزل وہی ہے۔موجودہ بحران لالچ کا نتیجہ ہے، عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں کمی کے رجحان کی وجہ سے آئل کمپنیوں نے نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ پٹرول درآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے پٹرول کا بحران پیدا ہوا۔

اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا کچھ افسران اس کے ذمہ دار ہیں یا اس کی ذمہ داری اوگرا پر آتی ہے۔ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ افسران اور بیوروکریسی اس کی ذمہ دار ہے لیکن جب وزیراعظم نے چند افسران کومعطل کیا تو پھر ان افسران کو بہت سی ہمدردیاں حاصل ہوگئیں ۔ اس بحران کے حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں اور جلد ہی ذمہ دار سامنے آجائیں گے۔ماضی میں اگر دیکھیں تو گزشتہ بیس سالوں میں انرجی کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی گئی اور نہ کسی پالیسی پہ عمل ہوا۔

دو قومی نظریہ ہمیں قائداعظم ؒ نے دی دیا، پھر آئین پاکستان بناجس کے مطابق لوگوں کے جان و مال کا تحفظ، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہماری حکومت اس کے لیے کام کررہی ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انفراسٹرکچر کے بغیرکوئی بھی قوم ترقی نہیںکرسکتی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیرپوری دنیا میں کوئی بھی سوسائٹی نظم و ضبط کے ساتھ نہیں رہ سکتی،ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہو اور ایک عام آدمی کی عزت نفس بھی برقرار رہے۔

چھوٹی ویگنوں میں اور دیگر چھوٹے ذرائع آمد و رفت میں لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اورسفر بھی مشکل میں گزرتا ہے۔ ہماری حکومت نے بہتر ٹرانسپورٹ کے لیے کام کیا ، موٹر وے بنائی، اسی طرح میٹرو بس کا منصوبہ بھی ہماری حکومت کاہے مگر اب ان ترقیاتی کاموں پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔میرے نزدیک وہ منصوبے جو مکمل ہو جاتے ہیں وہ ایسے منصوبوں سے بہتر ہوتے ہیں جو صرف تصورات کے کاغذوں میں تحریر ہوتے ہیں۔

لہٰذاجو لوگ تنقید کرتے ہیں میں ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جن ادوار میں موٹر وے نہیں بنی، دانش سکول نہیں بنے، میٹرو بس نہیں بنی، آشیانہ ہائوسنگ سکیم نہیں بنی، اکنامک کوریڈور کا منصوبہ نہیں بنا ،جس دور میں بہاولپور میں 1000 میگاواٹ کا پاورپلانٹ نہیں لگایا گیا ان ادوار میں قوم کا یہ پیسہ بچا کر کہاں لگایا گیا،کون سے فلاحی کام کیے گئے جن سے عوام کو ریلیف ملا۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ لوگ تعمیروترقی پر تنقید کررہے ہیں اور عوام کو منفی سوچ دی جارہی ہے۔ہمارے دور میں پہلی مرتبہ بھاشا ڈیم اور داسوڈیم کے لیے پیسہ ملا ہے لہٰذا ہماری ترجیحات میں عوام کو ریلیف اور سہولیات دینا ہے۔

دہشت گردی اور انرجی کے بحران سمیت بہت سے دیگر مسائل ہمیں وراثت میں ملے ہیں اور میںیہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگلے تین سالوں میں دہشت گردی اور انرجی کا بحران ختم ہوجائے گا اوراس کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روزگاری کاخاتمہ بھی ہوگا۔ اس وقت دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے فوج اہم کردار ادا کررہی ہے اورفوج بھی حکومت پاکستان کا حصہ ہے، تمام ادارے ریاست کے ادارے ہیں لہٰذا دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی بھی ریاست کی کامیابی ہوگی۔اس وقت ہماری حکومت تمام مسائل کے حل کے لیے کام کررہی ہے اور جس طرح کے منصوبے ہماری حکومت نے مکمل کیے ہیں ایسے بڑے منصوبے پورے جنوبی ایشیاء میں کسی نے نہیں کیے۔

اس وقت پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم ایک قوم بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور آنے والے وقت میں ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوں گے۔ بحران، جمہوری حکومتوں کے لیے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ اس وقت ہماری ترجیحات میں سب سے پہلے اس کا حل ہے اور آئندہ کے لیے اس کاسدباب کرنا ہے کہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اس کی تحقیق کی جارہی ہے اور اگرکوئی سازش ہوئی ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے گیا اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ہماری حکومت اس وقت ملکی ترقی کے لیے کام کررہی ہے ،مجھے امید ہے کہ ہم عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے اور آئندہ بھی عوام ہمیں منتخب کریں گے۔

خواجہ عاطف احمد (سیکرٹری انفارمیشن پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن پنجاب)

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس بحران کا ذمہ داراوگرا اوروزارت پٹرولیم ہے۔ تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے لائسنس کے اجراء کے وقت یہ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کم از کم 21دن کا پٹرول سٹاک رکھنے کی پابند ہیں لیکن اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی اور اوگرا اس پر خاموش بیٹھا رہا لہٰذاآئل کمپنیوں کی طرف سے اتنا سٹاک جمع نہ رکھنا حالیہ بحران کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اس کے علاوہ وزارت خزانہ نے220ارب روپے ’’پی ایس او‘‘ کو ادا کرنے ہیں جس میں سے40ارب ’’ کے ای ایس سی ‘‘، 120ارب ’’آئی پی پیز‘‘ اور 70 ارب روپے ’’پی آئی اے‘‘ کے ذمہ ہیں لہٰذا وزارت خزانہ اس سے بری الذمہ نہیں ہے۔ اس بحران سے جو سنسنی پیدا ہوئی اس کی وجہ سے لوگوں نے زیادہ مقدار میں پٹرول خریدکر سٹاک کرنا شروع کردیا اور اس سے بحران میں مزید اضافہ ہوا۔تاہم اب ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں کیونکہ کچھ بحری جہاز تیل لے کر پاکستان آچکے ہیں اوربعض اگلے چند دنوں میں پہنچ جائیں گے۔

اس وقت مقابلہ سازی کا دور ہے، میرے نزدیک ’’پی ایس او‘‘ کو ڈی ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ایسا کرنے سے ’’پی ایس او‘‘ اور پرائیویٹ ’’او ایس او‘‘ کے درمیان ایک مقابلے کی فصا پیدا ہوگی اس سے کسٹمر سروس بھی بہتر ہوگی،پٹرول کی قیمت میں مزید کمی آئے گی اور عوام کو ریلیف بھی ملے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہی سسٹم ہے اوراس وقت دنیا بھر میں فری مارکیٹ کا دور ہے لہٰذا ہمیں اپنے موجودہ سسٹم کو بھی فری کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے نزدیک جب تک ’’پی ایس او‘‘ کو ڈی ریگولیٹ نہیں کیا جائے گا، مسائل کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ آنے والے وقت میں پٹرول کی کپیسٹی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگا کیونکہ صرف لاہور میں روزانہ ہزاروں موٹرسائیکلیں اور کاریں رجسٹر ہورہی ہیں، اس سے بچنے کے لیے آئل کمپنیوں کو اپنے ذخائر میں مزیداضافہ کرنا ہوگا۔

اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بدستور کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے تمام آئل کمپنیوں نے نقصان سے بچنے کیلئے اپنے سٹاک کو کم کردیا اور صرف تین سے چار دن کا سٹاک جمع رکھا۔ اس کے علاوہ ’’پی ایس او‘‘ کی کچھ C/L بھی دیر سے ہوئیں اور اس کے بعد ’’پی ایس او‘‘ کی شپمنٹ بھی ایک ہفتہ لیٹ ہوگئی ۔ لہٰذا تین ،چار دن کا جو سٹاک آئل کمپنیوں کے پاس موجود تھا وہ ختم ہوگیا اور یہ بحران پیدا ہوا۔ اگر دوسرے صوبوں میں دیکھیں تو وہاں بحران پیدا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سی این جی پر مکمل پابندی نہیں ہے اور وہاں انرجی کے استعمال کاتیس سے چالیس فیصد انحصار سی این جی پر ہے۔

ایک اور امر جسے سب نظر انداز کیے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ’’ایل پی جی‘‘ کی اجارہ داری ہے، اس کے ڈیلرز نے قیمتوں میں بہت اضافہ کیا اور اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی، جب پٹرول کی قیمت میں کمی آئی تووہ تمام ٹرانسپورٹ جو’’ ایل پی جی‘‘ پر چلتی تھی ،پٹرول پر منتقل ہوگئی اور یہ بھی بحران کی ایک وجہ ہے۔اس وقت ڈیلرز بہت بری طرح پھنسے ہوئے ہیں،ہمارے عوام میں عدم برداشت بہت زیادہ ہے ،انہوںنے دوپٹرول پمپ توڑ دیے اوربعض جگہ تو ٹینکر سے پٹرول بھی منتقل نہیں کرنے دیا۔ انتظامیہ کی جانب سے ہمیں صرف تسلیاں دی جارہی ہیں لیکن عملاََ کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

کیپٹن شجاع انور (چیئرمین آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن)

سرکلر ڈیٹ مسلسل بڑھتا جارہا ہے جو اس بحران کی ایک بنیادی وجہ ہے اور حکومت اسے کم نہیں کرپارہی۔ میرے نزدیک جب تک ہم فیول منگوا کر اس سے بجلی پیدا کرتے رہیں گے اور نقصان 40فیصد تک پہنچ جائے گا ، ریکوری 60فیصد ہوگی تو میرے نزدیک حکومت کوئی بھی ہویہ مسئلہ رہے گا۔ ’’سی این جی‘‘ کا مقصد یہ تھا کہ عوام کوایک ایسا فیول دیا جائے جو مقامی ہو ،پٹرول کے متبادل ہواورسستا بھی ہو۔ ’’سی این جی ‘‘نے عوام کو ریلیف بھی دیا اور اس سے ماحول بھی آلودہ نہیں ہوا۔

جب تک سی این جی فراہم کی جاتی رہی، پٹرول کے بحران جیسے مسائل پیدا نہیں ہوئے لہٰذا’’ سی این جی‘‘ کی بندش بھی بحران کی وجہ ہے۔ اس وقت ’’ ایل این جی‘‘ کی درآمد بہت ضروری ہے ، اس سے یقینا بحران میںکمی آئے گی۔ پوری دنیا میں متبادل فیول پر کام ہورہا ہے اور پاکستان نے گزشتہ سالوں میں اس میں کامیابی بھی حاصل کی اور 40فیصد تک انرجی کا انحصار ’’سی این جی‘‘ پر تھا۔ اگر حکومت اسے جاری رکھتی تو سرکلرڈیٹ کا بوجھ عام آدمی پر نہ پڑتا۔ میری رائے یہ ہے کہ ’’ ایل این جی‘‘ کی درآمد کا بوجھ’’ پی ایس او‘‘پر نہ ڈالا جائے کیونکہ عالمی منڈی میں ’’پی ایس او‘‘ کی پزیرائی نہیں ہورہی۔

’’ایل این جی ‘‘امپورٹ کے حوالے سے 2011ء میں پالیسی بھی آگئی ہے اور ہم نے اس کے لیے کمپنی بھی کھول رکھی ہے جس میں بارہ سو’’ سی این جی‘‘ سٹیشن پارٹنر ہیں لہٰذا اس کمپنی کو یہ موقع دینا چاہیے تاکہ ہم’’ ایل این جی‘‘ کو ایک اچھی سطح پر لے جائیں اور متبادل فیول کی وجہ سے آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اس وقت ٹیکسٹائل سیکٹر میں گیس فراہم کی جارہی ہے، ابھی صرف لاہور میں سی این جی پر پابندی اٹھائی گئی ہے ، اگر پورے پنجاب میں سی این جی پر پابندی اٹھا لی جاتی تو عوام کو ریلیف ملتا اور اس بحران میں کمی آجاتی۔

پروفیسر جویریہ قیس (ماہر اقتصادیات)

اس بحران کی بنیادی وجہ آئل کمپنیوں اور حکومت کی بدانتظامی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پٹرولیم ڈیلرز نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور20دن کا پٹرول سٹاک نہیں کیا اور منافع کمانے کے لیے سٹاک میں موجود تیل فروخت کردیا ، یہ بدانتظامی آئل کمپنیوں کی طرف سے ہوئی اور اس وقت ملک میں صرف تین دن کا پٹرول باقی ہے ۔ اگر ہم سو بلین روپے ادا بھی کردیں تو اگلی پٹرول کی رسد آٹھ ہفتوں میں پاکستان آئے گی لہٰذا بحران کی یہ صورتحال آنے والے دنوں میں بھی رہے گی اور ہم مزید بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔

سمندری لہروں میں تغیانی کی وجہ سے جہاز لنگر انداز نہیں ہورہے جس کی وجہ سے پٹرول کی دستیابی میں مزید وقت لگ سکتا ہے ۔ میرے نزدیک حکومت اس وقت بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اور کوئی بھی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ یہ ایک ناکام ریاست ہے۔ ہم ہرلحاظ سے مسائل کا شکار ہیں، اگر ادارے کام نہیں کریں گے تو پھرپالسیاں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔سیکرٹری پٹرولیم حکومت کو اس کے بارے میں آگاہ کرتے رہے لیکن حکومت نے ان کو ہی معطل کردیا۔ دنیا میں کہیں چھوٹی سی بدانتظامی ہوتی ہے تووزیر سے لے کر وزیراعظم تک استعفیٰ دے دیتے ہیں۔

ہم اپنی حکومت سے صرف یہی پوچھتے ہیں کہ جب آپ کو یہ بحران نظر آرہا تھا تو اس پر پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے۔اس وقت پٹرول مہنگے داموں بک رہا ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس پر ایکشن نہیں لیا جارہا۔ پٹرول کی وجہ سے صرف گاڑیاں ہی بند نہیں ہوئیں بلکہ اس سے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نقصان ہوا ہے۔ اگر جمہوری حکومت بھی لوگوں کے مسائل حل نہ کرپائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اس بحران میں بطور شہری ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں لیکن ہماری معاشرتی تربیت ہی نہیں ہوئی لہٰذا اب ہمیں ذمہ دار شہری ہو نے کاثبوت دینا ہوگا تاکہ اس بحران سے نمٹا جاسکے۔

عبداللّٰہ ملک (نمائندہ سول سوسائٹی)

ریاست اور اس کے عوام کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جسے آئین کہتے ہیں ۔ اس آئین میں اس شہر میں رہنے والوں کے حقوق درج ہوتے ہیں۔ہمارے آئین کے آرٹیکل 8 سے 38تک تمام بنیادی حقوق کے بارے میں ہیں ، موجودہ بحران میں عوام کے حقوق کی پامالی ہوئی ہے ، انہیں ان کی بنیادی ضروریات سے دور رکھا گیالہٰذا سول سوسائٹی اس کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرے اوران کو بنیادی حقوق فراہم کرے، اس معاملے میں حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی ترقی پر کم خرچ  کرنے والے ممالک میں 176ویں نمبر پر ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ترقی ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ۔ جنوبی ایشیاء میں ترقی کے حوالے سے ہمارے بعد صرف افغانستان کا نمبر ہے،لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ہماری ریاست ، فلاحی ریاست نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ پٹرولیم ایکٹ کے مطابق تیل کے سٹاک اور ترسیل کے حوالے سے ضابطہ بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے۔

اس کے علاوہ اوگرا اتھارٹی 2002ء کے مطابق پالیسی سازی وفاقی حکومت کا کام ہے اور وہ اس میں ناکام رہی ہے لہٰذااس بحران کی ساری ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے اوروزیر پیٹرولیم، وزیر پانی و بجلی اور وزیر خزانہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ وفاقی حکومت اور اوگرا نے غفلت کا مظاہرہ کیا، اگر اوگرا اتھارٹی معاہدے کے تحت ہر آئل کمپنی20دن کا پٹرول سٹاک رکھتی تو6ماہ کا پٹرول سٹاک میں موجود ہوتا اور یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔ اس پر چیک اینڈ بیلنس حکومت کی ذمہ داری تھی، ہمارے ذرائع کے مطابق ہر محکمے نے حکومت کو اس کمی کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

سیکرٹری پٹرولیم کو معطل کرکے حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس بحران کی ذمہ دار حکومت ہے ، لہٰذا میرے نزدیک وزیر پٹرولیم کو مستعفی ہونا چاہیے۔18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انرجی کے ذرائع پیدا کریں لہٰذا پنجاب حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ انہوں نے وسائل اور انرجی پیدا کرنے کے لیے کیا کام کیا اور آخر یہ بحران صرف پنجاب میں ہی کیوں آیا ہے باقی صوبوں میں کیوں نہیں آیا۔ اس وقت حکومت صرف اپنی نااہلی چھپانے کی کوشش کررہی ہے، وزراء کے پاس اصل حقائق ہی نہیں ہیں اور اس بحران کے ذمہ دار وزراء ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس بحران کی ایک اور وجہ بدانتظامی ہے اوراس کی ذمہ دار انتظامیہ ہے۔

اس وقت حکومتی مشینری متحرک نہیں ہے اور میں نے کسی پٹرول پمپ پر کوئی پولیس اہلکار نہیں دیکھا ۔ اگر کوئی مافیا پٹرول بلیک کررہا ہے یا کہیں بدنظمی ہورہی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کا کام ہے۔ اگر کسی پٹرول پمپ پر کوئی دہشت گرد آجائے تو بہت نقصان ہوگا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ اس وقت لاکھوں لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے لہٰذاحکومت کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔عوام کوچاہیے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور مل کر اس بحران کا خاتمہ کریں ۔

عرفان غوری (سینئر وائس چیئرمین سی این جی ایسوسی ایشن پنجاب)

پٹرولیم بحران حکومت کی بد انتظامی ہے، جب حکومت نے پنجاب میں سی این جی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تواسے چاہیے تھا کہ اس بارے میں موثر منصوبہ بندی کرتی۔ سندھ اور کے پی کے میں سی این جی سیکٹر نے پٹرول کا تیس سے چالیس فیصدبوجھ اٹھایا ہواہے اس لیے یہ بحران وہاں پیدا نہیں ہوا۔ اب لاہور میں سی این جی کھول دی گئی ہے اور صرف ستر سی این جی اسٹیشن کھلنے سے اس بحران میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سیکٹر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اوراس کے ذریعے انرجی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

سی این جی سے تیس ارب روپے ماہانہ ٹیکس حکومت کو اکٹھا ہونا تھا ،اگر یہ ٹیکس سبسڈی کی صورت میں کسی اور سیکٹر کو دے دیا جاتا تو حالات اس سے مختلف ہوتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر چل رہی تھی ، سی این جی کی بندش سے وہ تمام گاڑیاں پٹرول پر منتقل ہوگئیں اور یہ بحران پیدا ہوگیا۔ حکومت اگر منصوبہ بندی کرتی تو یہ بحران پیدا نہ ہوتا اور میرے نزدیک اس کے ذمہ دارخواجہ آصف ہیں کیونکہ  آئی پی پی جنہوں نے فرنس آئل کا معاہدہ کیا لیکن اب وہ گیس پر چل رہے ہیں،ان کے ذمے 170ارب روپے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں ہمارے 40فیصد سی این جی اسٹیشن چل رہے تھے لیکن جب حکومت نے مکمل طور پر سی این جی کی فراہمی بند کردی تو یہ بحران پیدا ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔