میٹروبس اور پاک ٹی ہاؤس

زاہدہ حنا  اتوار 17 مارچ 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں لاہور کے کئی پھیرے لگے۔کبھی عورتوں کی جدوجہد کا میلہ تھا اورکبھی میٹروبس کا جشن۔ میٹرو بس کا جس روز دھوم دھڑکے سے آغاز ہوا، میں اس تقریب میں شریک تھی۔ ایک بہت بڑے پنڈال میں سیکڑوں لوگ بیٹھے ہوئے اور ترکوں سے اظہار محبت کرتے ہوئے۔

میاں شہباز شریف استنبول گئے تھے، وہاں کی میٹروبس کا نظام دیکھا تھا اورآنکھوںمیں ایک خواب بسا کر لے آئے تھے۔ ہمارے لوگ روزانہ بسوں کی چھتوں پر کیوں سفر کریں، اپنے اپنے کام سے لوٹنے والے ہر روز ذلت وخواری سے کیوں دوچارہوں۔ شہباز شریف ان لوگوں میں نہیںجنھیں جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ انھوں نے خواب دیکھا اور اپنی عادت کے مطابق اس کی تعبیر حاصل کرنے میں جُٹ گئے۔

ترکوں نے 42 کلومیٹر کا میٹرو بس سسٹم 3 برس میں مکمل کیا تھا۔ لاہور میں 27 کلومیٹر کا یہ کام دس گیارہ مہینے میں تکمیل کو پہنچا۔ وہ 11 فروری 2013 تھی جب میں نے ترک مہمانوں کو رسم افتتاح میں مسرت سے سرشار دیکھا۔ شریف برادران کی، مریم اور حمزہ کی خوشی کا تو پوچھنا ہی کیا۔

اس روز خواتین کے بارے میں ’اثر‘ کی سہ روزہ کانفرنس شروع ہوچکی تھی۔ اس لیے دوستوں کے اصرار کے باوجود میٹرو بس کی سیر میرے لیے ممکن نہ ہوسکی۔ پنڈال سے واپس گلبرگ جاتے ہوئے یہ ضرور دیکھا کہ لوگوں کا ایک اژدھام ہے جو ہر اسٹیشن پر اس سواری کا انتظارکررہے ہیں جس کا انھوں نے بہت ذکر سنا تھا ،جس کی وجہ سے انھوں نے بہت دھول مٹی پھانکی تھی اور جگہ جگہ ہنڈے گڑے دیکھے تھے جن کی روشنی میں راتوں کو بھی کام ہورہا تھا۔ یہ خبریں بھی گشت کررہی تھیں کہ چھوٹے میاں صاحب راتوں کو کام کی رفتار دیکھنے کے لیے چپکے سے پھیرا لگاتے ہیں۔

ہمارے لوگوں کو الف لیلہ کی کہانیاں بہت پیاری ہیں۔ شاید یہ خبریں بھی کہانیوں سے تراشی گئی ہوں۔ یوں بھی حقیقت اور کہانی کا پرانا رشتہ ہے۔ یہی سوچا تھا کہ پھر کبھی لاہور جائوں گی تو میٹرو میں بیٹھ کر شہر کی سیرکرو گی اور یہ دیکھوں گی کہ عام عورت اور مرد کس طرح عزت سے سفر کررہے ہیں اور ٹھنڈی بس انھیں کس طرح فرحت بخش رہی ہے۔ اس کے بعد جتنے دن کراچی میں بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر اور پائیدان پر لٹک کرسفر کرنے والوں کو دیکھا، یہی جی چاہا کہ یہاں بھی کسی کو ان لوگوں کی ذلت اور اذیت کا احساس ہو ۔

حیدرآباد میں صوفی شاہ عنایت شہید کے جلسے میں شرکت کے بعد کراچی پہنچی تو معلوم ہوا کہ لاہور سے دعوت نامہ آگیا ہے کہ چلیے اور میٹرو بس کی سیرکیجیے اور ساتھ ہی تیرہ برس بعد پاک ٹی ہائوس کا نیا جنم دیکھیے۔ لیجیے صاحب اندھا کیا چاہے،دو آنکھیں۔ دوسرے دن حیدرآباد سے کراچی پہنچتے ہی میں نے لاہور کا رخ کیا۔ لاہور ائیرپورٹ پر معلوم ہوا کہ ہمارے مدیر محترم طاہر نجمی بھی آئے ہیں۔

بڑے اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندے تو اکثر ایسے موقعوں پر یاد کیے جاتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر واقعی خوشی ہوئی کہ سندھی اخباروں عبرت، کاوش اور عوامی آواز کے نوجوان صحافی بھی اس وفد میں شامل تھے۔ اس نوعیت کے سفر اور ایک دوسرے سے میل ملاقات کے سبب بہت سی غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں اور دوست داری کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ہم لاہور میں صرف دو دن رہے اور یہ دو دن ایسے تھے کہ سانس لینے کی مہلت بھی کم کم ملی لیکن اس کا اندازہ ضرور ہوا کہ یہ سندھی نوجوان کچھ خوش اور کچھ حیران ہورہے تھے کہ کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ اس طرح بھی دن رات کام کرتا ہے اور اپنے لوگوں سے کام لیتا ہے۔ میٹرو بس کا سفر ہم سب کے لیے گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اگر ہمت کی جائے تو ہمارے یہاں ایسی میٹرو بس سروس کیوں نہیں چل سکتی۔

دوسرے دن صبح سویرے میاں شہباز شریف سے ہونے والی خصوصی ملاقات میں یہ سن کر اگر ہمیں موقع ملا تو ہم ایسی ہی میٹرو بس کراچی میں بھی چلائیں گے مسرت ہوئی۔یہ بات ایک دن پہلے ہم میاں نواز شریف کی زبان سے بھی ایک محفل میں سن چکے تھے جسے سن کر ہم سب سرشار ہوگئے تھے۔ یہ تھی ’پاک ٹی ہائوس‘ کی افتتاحی تقریب جس میں ہم بھاگم بھاگ پہنچے تھے۔ پاک ٹی ہائوس جو گزشتہ 13 برسوں سے بند پڑا تھا صرف لاہور کے نہیں، پاکستان بھر کے ادیب اور شاعر اس کی بندش کا نوحہ پڑھتے تھے۔ یہ وہ تاریخی چائے خانہ ہے جہاں پاکستان بھرکے بڑے اور چھوٹے ادیب ایک دوسرے سے ملتے تھے اور ادبی معاملات و مسائل پر بحثیں کرتے تھے۔ شاعری سنی جاتی اور افسانے سنائے جاتے ۔ ترقی پسندوں وجدیدیوں کے بیچ قیامت کا رن پڑتا۔

ایک پیالی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ادب کے کیسے کیسے رموزونکات بیان ہوتے اور ہر دوسرے تیسرے جملے میں ملارمے، سارترا،کافکااور سیمیون دی بووا کا ذکر ہوتا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے تمام بڑے فرانسیسی ادیب یہاں بیٹھنے والوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے ہیں۔ دوسرے شہروں سے آنے والے ادیب اور شاعر بھی اس بات پرناز کرتے کہ وہ پاک ٹی ہائوس میں چائے پی کر اور اپنی شعری یا نثری تخلیق سنا کر آئے ہیں۔ مجھے بھی وہ دن یاد آتے ہیں جب میں نے جمیلہ ہاشمی اور کئی دوسری خواتین افسانہ نگاروں کے ساتھ ’ٹی ہائوس‘ کی چائے بھی پی اور بحث میں بھی حصہ لیا۔

تو ہوا کچھ یوں کہ میٹرو بس چلانے کے ساتھ ہی میاں نواز شریف کو خیال آیا کہ یہ ادیب اور شاعر ٹی ہائوس کے بند ہوجانے کا بہ چشم نم ذکر کرتے ہیں تو کیوں نہ اس کے دوسرے جنم کے لیے کچھ کیا جائے۔ انھوں نے یہ کام حمزہ شریف کے سپرد کیا۔ ہم سب پاک ٹی ہائوس یہ سمجھ کر پہنچے کہ وہاں اب خالی پیالیاں دھری ہوں گی اور اس کے افتتاح میں شریک ہونے والے اپنی اپنی راہ جاچکے ہوں گے۔ لیکن ہماری گاڑیاں وہاں پہنچیں تو ہر طرف سیکیورٹی کا سخت انتظام تھا۔ اندر پہنچے تو معلوم ہوا کہ محفل ابھی جمی ہوئی ہے۔ حمزہ پچھلی صف میں ہیں اور میاں صاحب ان دنوں کا قصہ سنا رہے ہیں جب کبھی وہ بھی پاک ٹی ہائوس آئے تھے۔ انتظار حسین، عبداللہ حسین، جگنو محسن، نجم سیٹھی، عطأ الحق قاسمی، امجد اسلام امجد اور دوسرے ادیب اور شاعر توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے۔

اس روز محفل میں ’’شعیب بن عزیز ’ادب لطیف‘ کی صدیقہ بیگم، پروین عاطف، سلمیٰ اعوان، نیلم احمد بشیر اور متعدد دوسرے ادیبوں سے ملاقات ہوئی۔ چلتے چلتے میاںصاحب نے کہا کہ پاک ٹی ہائوس کانیا جنم، میٹرو بس کے آغاز سے بڑا واقعہ ہے۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ انھیں جب بھی موقع ملا وہ یہاں آئیں گے اور ادبی گفتگو سے لطف اندوز ہوں گے۔

وہ رخصت ہوئے تو ان کے ساتھ بیشتر ادیب رخصت ہوئے۔ شاندار صوفوں،کرسیوں اورخوبصورت پردوں سے مزین ٹی ہائوس کی اوپری منزل بھری دوپہر کی روشنی میں لشکارے ماررہی تھی۔ دیواروں پر گزر جانے والے ادیبوں کی تصویریں آویزاں تھیں اور ٹیلی ویژن اسکرین پر پروین شاکر کو دکھایاجا رہا تھا۔ ان کا کلام سنتے ہوئے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کہیں نہیں گئیں اور یہیں آس پاس موجود ہیں۔

کہاجارہا ہے کہ پاک ٹی ہائوس کے اس نئے جنم میں عطاء الحق قاسمی نے جی جان سے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس بارے میں بہت سے ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے جو اخباروں میں شایع ہوا ہے لیکن اب سے لگ بھگ پچاس، پچپن برس پہلے ہوش ترمذی نے پاک ٹی ہائوس کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا، وہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تحریر انھوں نے اس وقت لکھی تھی جب پاک ٹی ہائوس کی رونقیں عروج پر تھیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ شاعروں اور ادیبوں کے حلقے میں سب سے مقبول چائے خانہ پاک ٹی ہائوس ہے جو مال روڈ اور نیلا گنبد والی سڑک کے مقام اتصال پر واقع ہے۔ پہلے یہ انڈیا ٹی ہائوس کہلاتا تھا۔یہاں ہمیشہ سے ادیبوں کی کثرت رہی ہے، کنہیا لال کپور، دیوندرستیارتھی، سید عابد علی عابد، باری علیگ،غرض کہ ہندو،مسلمان اور سکھ ادیب یہاں مل کر بیٹھتے تھے اور ادبی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔تقسیم کے بعد انڈیا ٹی ہائوس کے سکھ مالک ہندوستان چلے گئے لیکن ان کی جگہ جو لوگ آئے وہ بھی شعروادب سے وابستگی رکھتے تھے۔ چنانچہ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے باوجود اس مقام کی ادبی روایت بدستور قائم ہے۔

نام البتہ بدل گیا ہے اور اب یہ ’پاک ٹی ہائوس‘ ہے۔ یوں تو وکیل، تاجر، ڈاکٹر سبھی قسم کے لوگ جو چائے کے شوقین ہوں پاک ٹی ہائوس میں پائے جاسکتے ہیں لیکن شاعروں اور ادیبوں کے لیے رفتہ رفتہ یہ چائے خانہ ڈرائنگ روم بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی شاعر اگر کسی دوست کو وقت دینا چاہے تو وہ یہی کہے گا کہ’’ فلاں وقت پر پاک ٹی ہائوس میں مجھ سے مل لیجیے۔‘‘ نصف صدی پہلے کی یہ تحریر ہمیں ’پاک ٹی ہائوس‘کی خوبصورت جھلک دکھاتی ہے۔اس ریستوران نے عروج دیکھا اورپھر زوال بھی۔ لیکن یہاں زوال کا ذکرکیوں جائے کہ مارچ 2013 ء میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی اس کا پھر سے ظہور ہوا ہے۔ نیت نیک ہو اورکام کرنے کا جنون ہوتو وہ کچھ کیا جاسکتا ہے جو شہباز شریف ، ان کی ٹیم اور متعلقہ اداروں نے مشکل حالات میں بھی کر دکھایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔