’’ایم ایم عالم بھارت کے6طیاروں کے پیچھے اکیلا ہی دوڑ پڑا‘‘

رانا نسیم / نفاست حسنین  اتوار 24 مارچ 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) امتیاز احمد بھٹی ایم ایم عالم کے ساتھ اس تاریخی معرکہ میں موجود تھے۔

جس میں انھوں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارتی فضائیہ کے متعدد جہاز گرا کر نہ صرف حملہ پسپا کیا بلکہ عالمی ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔ امتیاز بھٹی نے ’’ایکسپریس‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایم عالم ایک خاص شخصیت کے مالک تھے، میں ان سے بہت جونیئر تھا اور ان کے ساتھ عزت و احترام کا بہت مضبوط تعلق رکھتا تھا، انھیں جنون کی حد تک جہاز اڑانے کا شوق تھا، ان کی ساری توجہ جہاز اڑانے پر رہتی تھی جبکہ دنیاوی خواہشات ان میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ 6 اور 7 ستمبر کو انڈیا کی طرف سے پہلا فضائی حملہ سرگودھا پر ہی کیا گیا، جہاں پر میں، ایم ایم عالم کے ساتھ تعینات تھا۔

ایم ایم عالم اس وقت پاکستان ائیر فورس کے 11اسکواڈرن کے کمانڈر تھے۔ جب پہلا حملہ ہوا اور ائیر بیس پر الارم بجایا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جہازوں سے نکل کر خندق میں چلے جائیں، تو اس وقت میں اپنے جہاز میں موجود تھا۔ میں جلدی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی بیٹھے تھے، میں نے انھیں کہا کہ اندر چلیں تو انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے ہی سوال کر دیا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ ابھی جو حملہ ہوا، اس میں کون کون سے جہاز استعمال ہوئے ہیں، میں نے اپنے اندازے سے جواب دیا، جس پر انھوں نے اپنا اندازہ بتایا کہ کون کونسے جہاز استعمال کئے گئے ہیں۔

امتیاز احمد نے بتایا کہ سات ستمبر کی صبح تین جبکہ دوپہر کے بعد ایک حملہ سرگودھا پر کیا گیا۔ پہلے حملے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے حملے کی اطلاع ملی تو ہمیں تیار ہونے کا حکم دیا گیا، جس پر میں اپنے جہاز میں چلا گیا جبکہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی تھے۔ بھارتی ائیر فورس چھ چھ جہازوں پر مشتمل فارمیشن میں حملہ کرتے تھے جن میں سے چار جہاز حملہ کے لئے استعمال ہوتے تھے جبکہ دو جہاز ان جہازوں کے دفاع کے لئے استعمال ہوتے تھے، جب دوسراحملہ شروع ہوا تو ہمیں اڑان کے احکامات ملے، ہم نے ایک ساتھ اپنے اپنے جہاز اڑائے اور حملہ کو روکنے کے لئے روانہ ہو گئے۔

ہم نے حملہ شروع کیا اور کڑانہ پہاڑیوں پر پہنچے تو ایک انڈین جہاز میرے حملے کی رینج میں آیا میں اس پر گولیاں برسانے لگا تو میں نے دیکھا کہ بھارتی جہاز کے عین نیچے ایم ایم عالم کا جہاز تھا جس پر میں نے فوری طور پر فائرنگ کا ارادہ بدل دیا، تاہم ایم ایم عالم نے انڈین جہاز کو میزائل مار کر تباہ کر دیا جبکہ اس کے پائلٹ نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی۔

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسکواڈرن لیڈر ہے اور ہلواڑہ سے اس نے اڑان بھری، کچھ آگے گئے تو لالیاں کے قریب انڈیا کی 6 جہازوں پر مشتمل ایک اور فارمیشن سے ہماری مڈھ بھیڑ ہو گئی جو کہ حملہ کے لئے سرگودھا کی طرف بڑھ رہی تھی، ایم ایم عالم نے اپنا جہاز ان کے پیچھے لگا دیااور ان پر ہلہ بول دیا، جبکہ میں انھیں دیکھتا ہی رہ گیا، ایم ایم عالم نے آن کی آن میں ان کے متعدد جہاز گرا دیئے جن کی اصل تعداد میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میں خود اس وقت حملہ میں مصروف تھا۔

امتیاز احمد نے بتایا کہ اگرچہ ہماری تعداد بہت کم تھی لیکن ہماری ٹریننگ اس قسم کی تھی کہ ہم بڑی تعداد سے خوفزدہ نہ ہوئے اور انڈیا پر چڑھ دوڑے، ہمارے پاس ایم ایم عالم جیسے تجربہ کار اور منجھے ہوئے پائلٹ موجود تھے تو دوسری طرف ایسے نوجوان پائلٹ بھی تھے جو کہ اپنی جان پر کھیل کر ملک کا دفاع کر رہے تھے۔ ایم ایم عالم کی نجی زندگی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ایم ایم عالم کو صرف جہاز اڑانے کا جنون تھا اس کے علاوہ انھیں کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی،انھیں کاریں خریدنے کا شوق تھا نہ ہی گھر بنانے کا۔

ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) کا کہنا تھا کہ 1960ء میں جب میں نیا نیا ایئر فورس میں آیا تو میری ٹرانسفر کراچی ہو گئی۔ اس موقع پر میرے ایک سینئر نے مجھے کہا کہ وہاں ایم ایم عالم سے ضرور ملنا۔ وہ تمھاری بہترین رہنمائی کریں گے۔ میں جب کراچی گیا تو وہاں ہر وقت وردی پہننے کا رواج نہیں تھا لیکن ایم ایم عالم ہر وقت وردی پہن کر رکھتے تھے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے جواب دیا کہ کسی بھی وقت کال کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عالم راولپنڈی کے میس میں رہتے تھے۔ جب میں اہلخانہ کے ہمراہ ان سے ملنے گیا تو انھوں نے میری اورمیری بیوی کی چائے سے تواضع کی جبکہ بچوں کو ٹافیاں دیں۔

راولپنڈی میں ان کے پاس دوکمرے تھے ایک میں خود رہتے دوسرے میں کتابیں تھیں۔ عام طور پر ان کی پیدائش کو 1935ء سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے مجھے جو تاریخ پیدائش بتائی وہ 1933ء تھی۔ ایم ایم عالم کی پاکستان سے محبت کے بارے میں امتیاز بھٹی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سے نہایت محبت رکھتے تھے۔ ایک بار کراچی میس میں بیٹھے ہم معمول کی گپ شپ کر رہے تھے کہ اس دوران میرے منہ سے پاکستانیوں کے بارے میں کچھ برا بھلا نکل گیا تو اس بات پر وہ مجھ سے سخت ناراض ہو گئے اور مجھے باقاعدہ ڈانٹا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔