شاندار فارمولا

03332257239@hotmail.com

[email protected]

چین کی ترقی نے اسے خوشحالی عطا کی، دولت کی برسات جس پر سب کی نظر ہے۔ پیسے اور ڈالر سے اچھا کھانا کھایا جا سکتا ہے، اچھے کپڑے خریدے جا سکتے ہیں اور اچھا گھر لیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہو گیا روٹی، کپڑا، مکان۔ چین ہی نہیں دنیا بھر میں پیسے کو نوے فیصد سے زیادہ مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے، ترقی اور پیسے آ رہے ہوں تو اچھی گاڑی لی جا سکتی ہے، بچے اچھے اسکولوں میں پڑھ سکتے ہیں اور اچھا علاج ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کی سیر کرنے کے لیے اوپر والے سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں لفٹ کرا دے۔ قدرت آج کل چین کو لفٹ کروا رہی ہے تو دنیا بھر کی نظر عوامی جمہوریہ پر ہے۔ نو، دس اور گیارہ فیصد سالانہ ترقی اور چالیس کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال باہر کرنا۔

اسی چین کی ایک بڑی کمپنی نے ایک تجربہ کیا۔ زیادہ سے زیادہ کام اور وہ بھی پرسکون انداز میں۔ ایک ڈائریکٹر نے پانی کی مدد سے کئی سائنسدانوں کو فارمولا ایجاد کرنے کی ترغیب دی۔ کئی برسوں کی محنت اور کئی لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے بعد ایک ترکیب سامنے آئی۔ پانی کی مدد سے ایسی ترکیب کہ انسان کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جائے۔ کام کر کے تھک جانے والا انسان ری چارج ہو جائے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہوا۔ اس ڈائریکٹر نے اجازت چاہی کہ ماہرین کو بلوایا جائے تا کہ وہ اس بڑی کمپنی کے کرتا دھرتا لوگوں کے سامنے اپنی دریافت کا مظاہرہ کر سکیں۔ پانی سے انسانی کارکردگی کو بڑھانے کا مظاہرہ۔ پھر تھکن دور کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ کام۔ کام لگاتار کرنے کے بجائے اسے شفٹوں یا وقفوں میں بانٹنا اس آئیڈیا کا اہم نکتہ تھا۔ اس کے تقریباً پندرہ مرحلے تھے یعنی پوری ایکسرسائز تقریباً پندرہ مختلف کام کر کے پایہ تکمیل تک پہنچنی تھی۔

سات ڈائریکٹرز میں سے ایک اس پیشکش کے دوران مسکرا رہا تھا۔ سائنسدانوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ڈائریکٹرز کو محسوس ہوا کہ ان کا یہ ساتھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ وہ تجسس جو دوسرے ذمے داران میں ہے اس سے وہ یکسر خالی ہے۔ سوال جواب کی نشست میں بھی اس ڈائریکٹر نے کوئی سوال نہ پوچھا۔ اس کارروائی میں کوئی ترمیم بھی اس ڈائریکٹر نے پیش نہ کی۔ چیئرمین نے اس سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ دو باتیں ہو سکتیں تھیں۔ یا تو وہ بالکل مطمئن تھا کہ سب کچھ صحیح ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے کہ اسے پورے پلان سے اتفاق نہ ہو۔ بات دوسری تھی۔ وہ ڈائریکٹر اخراجات کرنے اور اتنا وقت لگانے کو وقت کا ضیاع قرار دے رہا تھا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ کارکردگی بڑھانے اور کم وقت میں زیادہ کام کرنے کا یہ فارمولا اس ڈائریکٹر کی نظر میں کوئی اہمیت کیوں نہ رکھتا تھا۔ جب سوال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ پرانا فارمولا ہے۔ تمام ڈائریکٹرز اور سائنسدان حیران تھے کہ اتنی سرمایہ کاری اور محنت کے بعد تیار کیا گیا فارمولا کس طرح پرانا ہو سکتا ہے۔

جب اس سے سوال پوچھا گیا کہ کیا کسی اور کمپنی نے یہ فارمولا رجسٹرڈ کروایا ہے یا اس حوالے سے کسی اور ملک میں کوئی ریسرچ ہو چکی ہے؟ اجلاس کو بتایا گیا اور دنیا کے تقریباً سو سے زیادہ ملکوں میں یہ فارمولا رائج ہے۔ تمام شرکاء حیران تھے کہ اس طرح تو ان کی محنت ضایع ہو گئی۔ ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا چین بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس فارمولے پر عمل ہوتا ہو۔ جب اس ڈائریکٹر کا جواب ہاں میں تھا تو ساتھیوں نے پوچھا کہ کس شعبے کی کمپنی نے اسے رجسٹرڈ کروایا ہے؟ سیمنٹ، تمباکو، ٹیکسٹائل یا اسٹیل۔ جب بتایا گیا کہ یہ فارمولا رجسٹرڈ نہیں۔ اجلاس کو  اس ڈائریکٹر کی منطق سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ کسی کمپنی نے اس اہم فارمولے پر حق ملکیت نہیں جتایا۔ دنیا میں سو سے زیادہ ممالک میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اب دو سوال اور تھے دنیا بھر میں اس فارمولے پر کب سے عمل ہو رہا ہے؟ چین میں کون سی کمپنیاں یہ کام کر رہی ہیں؟

شنگھائی میں ہونے والے اس اجلاس میں لوگ حیران تھے۔ جس کام پر انھوں نے کثیر سرمایہ اور محنت لگائی وہ بیکار جا رہی تھی۔ اب بھی تمام  افسران حیران تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ شنگھائی میں کس کمپنی میں پانی کی مدد سے کارکردگی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جب اس ڈائریکٹر نے بتایا کہ وہ کوئی تجارتی کمپنی نہیں بلکہ ایک مذہبی عبادت گاہ ہے۔ جب پوچھا گیا کہ دنیا میں یہ فارمولا کب سے لاگو ہے؟ وہ 14 سو سال سے جاری رہنے والے وضو کے عمل کو سن کر حیران ہو گئے۔ وہ اس عمل کو اپنے روبرو دیکھنا چاہتے تھے۔ جب ڈائریکٹرز اور سائنسدانوں کا یہ قافلہ چین کے ایک بڑے شہر کی مسجد میں پہنچا تو نماز کا وقت تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ لوگ پانی سے کلی کر رہے ہیں، آنکھیں، کان اور ناک صاف کر رہے ہیں، وہ کہنی تک ہاتھ دھو رہے ہیں اور گردن پر پانی پھیرنے کے بعد پاؤں دھو رہے ہیں۔ چینی حیران تھے کہ ایک مسلمان ڈائریکٹر نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ سترہ مرحلوں پر ان کا فارمولا کئی برسوں کی ’’پانی اور انسانی جسم پر اس کے اثرات‘‘ کی روشنی میں تیار ہوا تھا۔ اب ذرا ان دو انسانوں کو غور سے دیکھیں کہ یہ کرتے کیا ہیں؟ ممکن ہے دو انسانوں کی مثالیں پوری انسانیت پر لاگو ہو جائیں۔

پاکستان اور دنیا بھر میں لوگ صبح کام پر جاتے ہیں۔ لنچ تک وہ دو تین سے لے کر پانچ چھ گھنٹے تک کام کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کام کرنے والوں میں دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر لفٹ سے ہوتے ہوئے ایئرکنڈیشنڈ دفتر پہنچ جانے والے یا مشکل سواری کے مرحلے کو عبور کر کے دن بھر سڑکوں اور گلیوں میں ڈیوٹی دینے والے۔ اس دوسری قسم کے شخص پر جو مٹی، دھول لگتی ہے وہ زیادہ تر اس کے جسم کے ان حصوں پر لگتی ہے جو کھلے ہوتے ہیں۔ جب چار چھ گھنٹے کی مشقت کے وہ وضو کر کے نماز پڑھتا ہے تو تازہ دم ہو جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن دور ہونے کے بعد وہ ری چارج ہو جاتا ہے۔ سارا دن کرسی پر ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھنے والے کو کسی عمل میں دنیاوی لحاظ سے فائدہ ہے؟ سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھ کر اس کا جسم اکڑ سا جاتا ہے، جب وہ نماز میں رکوع و سجود کرتا ہے تو دینی کے ساتھ دنیوی فائدہ اس کے جسم کے کس بل کو درست کر دیتا ہے۔ پھر دو تین گھنٹے کے بعد عصر، مغرب اور سونے سے قبل عشاء۔ صبح جلد اٹھ کر نماز فجر کی ادائیگی۔ موسم کی تازگی کے ساتھ ’’جلد سونے جلد اٹھنے اور دولت، صحت اور دانش‘‘ پانے والا محاورہ۔

انسان کی اپنی بھلائی و صحت کے لیے قدرت کا عطیہ اور نبیؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز۔ روزے اور زکوٰۃ کے روحانی فوائد ہی کی اصل اہمیت ہے لیکن ہم گنہگار یہ سمجھیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری اپنی بھلائی کے لیے مقرر کیے ہیں۔ ہمارے یہ اعمال نہ ربّ کی کبریائی میں اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہم کوئی عمل نہ کر کے اس کی شان گھٹا سکتے ہیں۔ دنیا جس فارمولے کی محتاج ہے اس کی ہم مسلمان اپنی نا اہلی کے سبب نا قدری کر رہے ہیں۔ صدیوں کے بنے بنائے فارمولوں پر دنیا تحقیق کر رہی ہے اور ہم خزانوں کے مالک ہو کر بھی مفلسوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاید ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے قدرت کے شاندار فارمولے کو جو ہمیں بغیر مانگے اور بن مول مل گیا ہے۔ فطرت سے قربت کا شاندار فارمولا معراج میں نبیؐ کو ملنے والا تحفہ۔ انسان کی آخرت اور دنیا کی بھلائی کا شاندار فارمولا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔