کم سن جو دنیا بدل رہے ہیں

عبید اللہ عابد  اتوار 22 ستمبر 2013
 آج کی دنیا میں بھی ایسے غیرمعمولی بچے موجود ہیں جو اپنے منفرد آئیڈیاز کے ساتھ دنیا بدلنے کی کوشش کررہے ہیں فوٹو : فائل

آج کی دنیا میں بھی ایسے غیرمعمولی بچے موجود ہیں جو اپنے منفرد آئیڈیاز کے ساتھ دنیا بدلنے کی کوشش کررہے ہیں فوٹو : فائل

امریکا کے شہر منٹگمری میں شہری حقوق کی تحریک کا کریڈٹ روزاپارکس کو دیاجاتاہے۔

سن 1955ء میں جب انھوں نے ایک بس میں اپنی سیٹ چھوڑنے سے انکار کیاتھا ، ان کے اس حرفِ انکار کو تاریخ کے صفحات میں خوب پذیرائی ملی، یقیناً ان کا کارنامہ سنہری حروف ہی میں لکھے جانے کے قابل تھا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سے پہلے ایسی ہی صورت حال کاسامنا ایک 15سالہ سیاہ فام لڑکی کلوڈیٹ کولون کو کرناپڑاتھا۔

 

وہ ایک بس میں سوار تھی جب ایک سفیدفام لیڈی سوار ہوئی۔ کنڈکٹر نے اسے سیٹ چھوڑنے کو کہا لیکن اس نے پوری جرات کے ساتھ ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اس نے یہ کارنامہ روزاپارکس سے نو ماہ قبل سرانجام دیا تھا۔ اسے اس انکار کی بناء پر گرفتارکیاگیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ یہ سن 1955ء کا واقعہ ہے۔ تب کلوڈیٹ واشنگٹن کے ایک ہائی سکول میںپڑھتی تھی۔ اس کی گرفتاری نے سیاہ فام امریکیوں میں اشتعال پیدا کردیا۔ یہی اشتعال بعدازاں اس جوش وجذبہ میں بدلاجس نے سیاہ فام امریکیوں کو بھی انسانوں کا درجہ دلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

لوئیس بریل بھی ایسا ہی غیرمعمولی لڑکا تھا جس کا کارنامہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ وہ 1809ء میں کو پورے، فرانس میں پیدا ہوا۔ تین سال کی عمر میں ایک حادثے نے اسے نابینا کردیا۔ وہ رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ ( پیرس) میں پڑھتا رہا۔لوئیس نے ایک نابیناؤں کے لئے پڑھنے اور لکھنے کا ایک عجب نظام متعارف کرایا۔ اس میں لفظ ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم آج اسے بریل نظام بھی کہتے ہیں۔ انیس بر س کی عمر میں بریل رائل انسٹی ٹیوٹ میں ایک کل وقتی استاد بن گیا۔ وہ وہاں اپنی زندگی کے آخری دن تک اپنے فرائض سرانجام دیتارہا۔ یادرہے اس کا 43برس کی عمر میں انتقال ہوگیاتھا۔

آج بریل ایک یونیورسٹی ہے۔ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق بریل نظام تعلیم میں پڑھنے والے باقی نابیناؤں کی نسبت زیادہ برسرروزگار ہوتے ہیں، وہ معاشی طورپر مسائل کا شکار بھی نہیں ہوتے اور وہ زیادہ مطالعہ کرتے ہیں۔

ان دونوں ٹین ایجرز کا تعلق ماضی بعید سے ہے لیکن آج کی دنیا میں بھی ایسے غیرمعمولی بچے موجود ہیں جو اپنے منفرد آئیڈیاز کے ساتھ دنیا بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان میں سے کوئی غریب بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے دیوانہ وار جدوجہد کررہی ہے، کوئی افریقہ میں پینے کے صاف پانی کا انتظام کررہاہے۔ کسی کاخواب ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بچہ کینسر میں مبتلا نہ ہو اور جو اس بیماری کا شکار ہیں، انھیں اس سے نجات مل جائے۔کسی کو فکر ہے کہ ٹین ایجر بے مقصدیت کا شکار نہ ہوں بلکہ وہ دنیا کے موثرقائد بن جائیں۔ یہ سب کم سن صرف اپنے اردگرد بسنے والوں کی قسمت ہی نہیں بدلناچاہتے بلکہ وہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کی ساری دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ایک پرامن دنیا، بامقصد لوگوں کی دنیا، بھوک وافلاس سے پاک دنیا ترتیب دیناچاہتے ہیں۔ آئیے! ان کی جدوجہد کا دلچسپ احوال جانتے ہیں۔

کیٹی سٹیگلیانو
سمرولا کی دس سالہ بچی کیٹی سٹیگلیانو کا خواب اس امر کو یقینی بناناہے کہ بچے بھوکے نہ سوئیں۔سن2008ء میں نو سالہ کیٹی سٹیگلیانو جب سکول سے واپس آئی تو اس کے پاس بند گوبھی کا بیج تھا۔ یہ Bonnie Plants Third Grade Cabbage Program کے تحت اسے ملے تھے۔ اس نے یہ بیج اپنے گھریلو باغیچہ میں بودیا۔ جب اس کے پودے نے زمین سے پہلی بار سر نکالا تو کیٹی مارے خوشی کے چیخ رہی تھی۔پودا بڑا ہوا، اس پر لگنے والی گوبھی 40پونڈ تک وزنی ہوگئی۔

کیٹی کو معلوم تھا کہ اس گوبھی سے کچھ انسانوں کی بھوک مٹائی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس نے اور اس کی امی نے رشتہ داروں اور دوستوں سے استفسار کیاکہ اسے کن لوگوں کو مہیا کرناچاہئے۔ پھر کیٹی نے یہ بند گوبھی ایک ’’سوپ کچن‘‘ کو دے دی۔ یادرہے کہ ’سوپ کچن‘ سوپ کی ایسی دکان کو کہتے ہیں کہ جہاں غریب اور مستحق افراد کو مفت یا پھر نہایت کم قیمت پر سوپ فراہم کیاجاتاہے۔ جس سوپ میں کیٹی کی فراہم کردہ بندگوبھی شامل ہوئی، اسے275افراد نے پیا تھا۔ جب اسے یہ بات چلی کہ اس کی بند گوبھی اس قدر زیادہ لوگوں کے حصے میں آئی تو اس آئیڈیا نے اسے پرجوش کردیا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ ’’سوپ کچنز‘‘کو عطیات بھی فراہم کرتے ہیں اور خوراک کاسامان بھی ۔ ایسے میں کیٹی کو ایک نیا خیال سوجھاکہ وہ سبزیوں کے ایسے کھیت تیار کرے گی جہاں اگنے والی سبزیاں مستحق لوگوں کو دی جائیں گی۔ آج کیٹی کے بے شمار کھیت ہیں جنھیںKatie`s Kropsکا نام دیاگیاہے اور یہاں اگنے والی ہزاروں پونڈ تازہ سبزیاں ضرورت مند لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔

کیٹی اب 12سال کی ہے اور ایک سکول میں پڑھ رہی ہے۔ اس کے اس پراجیکٹ میں بہت سے دیگرلوگ بھی تعاون کر رہے ہیں۔ اسے بخوبی ادراک ہے کہ چندبیج بونے، انھیں پانی دینے اور ان کی معمولی سی نگہداشت کرنے سے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی پیداکی جاسکتی ہے۔ کیٹی نے اپنے پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لئے ٹی شرٹ کی ڈیزائننگ کے ایک مقابلے میں حصہ لیا۔یہ مقابلہ بچوں کے درمیان ہی تھا اور انھیں بچوں کی ٹی شرٹس کے ڈیزائن ہی تیارکرناتھے۔اس مقابلے کا اہتمام ایک غیرمنافع بخش تنظیم نے کرایاتھا جو بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرناچاہتی تھی۔ جب کیتھی نے ایک بڑا خواب آنکھوں میں سجائے ٹی شرٹ ڈیزائن کی تو اس کا ڈیزائن بہترین قرارپایا یوں وہ یہ مقابلہ جیت گئی۔اسے یہاں سے جو انعامی رقم وصول ہوئی، وہ بھی خواب پورا کرنے کے لئے استعمال کی گئی۔ اس کے بعد اس نے اس ڈیزائن والی ٹی شرٹس فروخت کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔اب یہ ایک ایسا کاروبار بن گیا ہے جس کی آمدن کا دس فیصد ’’ نوہنگری چلڈرن‘‘(کیٹی کا ایک پراجیکٹ) کو جاتاہے۔ کیٹی کا کہناہے کہ ایک چھوٹے سے بیج میں بھی اس قدر طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک بڑا مقصد پورا کرسکتاہے۔

ریان ہریلجیک
یہ جنوری 1998ء کی بات ہے جب چھ سالہ ریان ہریلجیک گریڈ 1کی کلاس میں بیٹھا ہواتھا۔ اس کی ٹیچر مسز پریسٹ نے بتایا کہ پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ بیمار ہورہے ہیں حتیٰ کہ بعض ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔ ٹیچر نے بتایا کہ براعظم افریقہ میں بعض لوگ گندا پانی حاصل کرنے کے لئے بھی کئی گھنٹوں تک پیدل سفرکرتے ہیں۔

ریان ہریلجیک نے جب یہ سناکہ افریقہ میں چھوٹے چھوٹے بچے روزانہ پینے کا پانی لینے کے لئے کئی کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں تو وہ حیران رہ گیا۔ اسے یقین نہ آیا کہ دنیا میں ایسا بھی ہوتاہے۔ اس نے سوچا کہ اسے پینے کا صاف پانی لینے کے لئے اپنے کلاس روم سے باہرنکل کر گنتی کے دس قدم اٹھانا پڑتے ہیں۔اس روز سے پہلے وہ سوچاکرتاتھا کہ دنیا میں ہربچہ ویسی ہی زندگی گزاررہاہے جیسی وہ خود۔ تاہم جب اسے اپنے خیال کے غلط ہونے کا ادراک ہوا تو اس نے فیصلہ کیاکہ اسے کچھ کرناہوگا۔چنانچہ جب وہ گھرپہنچاتو اس نے اپنی امی اور ابو سے اس بابت مدد کرنے کو کہا۔ چنددن ہی گزرے ہوں گے کہ انھوں نے بیٹے کو بتایا کہ ایک کنواں کھودنے پر 70ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ریان ہریلجیک کو لگا کہ اگر ایک کنواں کھودنے پر محض 70ڈالر ہی خرچ ہوتے ہیں تو دنیا میں پانی کامسئلہ حل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ اس نے اگلے چار ماہ کے دوران 70ڈالرز جمع کرلئے، تب اسے پتہ چلاکہ یوگینڈا جیسے ملک میں ایک کنواں کھودنے پر2000ڈالرزخرچ آتے ہیں۔اس موقع پر اسے محسوس ہواکہ مسئلہ اتناچھوٹا نہیں جتنا وہ سمجھتاتھا۔

چنانچہ ریان ہریلجیک نے اس بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنی کوششوں کا دائرہ بھی وسیع کردیا۔ وہ سروس کلبوں ، سکولوں کے کلاس رومز حتی کہ ہراس جگہ پہنچاجہاں اسے اپنی بات سنے جانے کی امیدتھی۔ اس مہم کے دوران اس نے مطلوبہ رقم اکٹھی کرلی، یوں یوگینڈاکے شمالی علاقے میں واقع ایک گاؤں کے ایک اینگلوپرائمری سکول میں پہلاکنواں کھودا گیا۔اس وقت اس کی عمر محض سات برس تھی ۔اس طرح یہ گریڈون کا پراجیکٹ ’’ ریانز ویل فاؤنڈیشن‘‘ کی صورت اختیارکرگیا۔ ریانز ویل فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جس نے دنیا بھر کے16ممالک میں 667کنویں کھودے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کنوؤں سے سات لاکھ 14ہزار افراد صاف پانی پی رہے ہیں۔

اب ریان ہریلجیک کینیڈا کے مشرقی ساحلی شہر ہالیفیکس کے کنگز کالج یونی ورسٹی میںچودھویں کلاس کا طالب علم ہے۔ اس کی عمر 20برس ہے۔ وہ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ اور پالیٹیکل سائنس میں تعلیم حاصل کررہاہے۔ وہ اب بھی فاؤنڈیشن میں مسلسل سرگرم ہے۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر پانی کے مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور لوگوں کو سمجھاتاہے کہ آپ جو بھی ہوں اور آپ کی جتنی بھی عمر ہو، آپ یقینی طورپر دنیا بدل سکتے ہیں۔

الیگزینڈرا الیکس سکاٹ
الیگزینڈرا الیکس سکاٹ1996ء میں پیدا ہوئی۔ اس بچی کی عمر ابھی ایک سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ ایک بیماری ’نیوروبلاسٹوما‘ میں مبتلا ہوگئی ۔ یہ بچوں کو ہونے والا کینسر ہوتاہے۔ کینسر کی یہ قسم دماغ میں پیغام پہنچانے والے اعصاب کو متاثرکرتی ہے۔ ڈاکٹروں نے بچی کے والدین سے کہاکہ اگربچی نے کینسر کو شکست دے دی تب بھی وہ ساری زندگی چلنے پھرنے سے معذور رہے گی۔تاہم الیکس نے ڈاکٹرکی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنی دوسری برتھ ڈے کے موقع پر کھڑی ہونے کی کوشش کی اور اپنے اندر اس قدر قوت مجتمع کرلی کہ وہ چل سکے۔

اگلے ایک سال کے دوران الیکس کے ٹیومرز نے دوبارہ بڑھناشروع کردیا۔ اور سن 2000ء میں، چوتھی برتھ ڈے سے محض ایک روز قبل اس کا سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ہوا۔ اس روز اس نے اپنی امّی سے کہا کہ جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوگی تو سکنجبین سٹینڈ لگائے گی۔اس طرح وہ لوگوں سے چندہ اکٹھا کرے گی اور ڈاکٹر کو دے گی تاکہ وہ اس بیماری کا صحیح علاج تلاش کرسکے۔ الیکس نے اپنی بات کو سچ ثابت کردکھایا، اس نے سکنجبین سٹینڈ لگایا۔ اس روز اس نے اپنے ہسپتال کے لئے 2000 ڈالرز کا چندہ اکٹھا کیا۔

یہ اس کی شاندار کامیابی تھی۔ الیکس نے آنے والے کئی مہینوں تک سکنجبین سٹینڈ لگانے کا سلسلہ جاری رکھا، اس دوران وہ کینسر سے جنگ بھی لڑتی رہی۔ جب یہ خبردنیا میں عام ہوناشروع ہوئی کہ یہ غیرمعمولی بچی دوسرے بیمار بچوں کی مدد کرناچاہتی ہے تو دنیابھر کے لوگ اس کے عزم اور کام سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے اس قدرچندہ دیا کہ پھر ایک روز ’’الیکسز لیمنیڈ سٹینڈ فاؤنڈیشن ‘‘نام کا ایک ادارہ قائم ہوگیا۔ اگلے برسوں میں بھی الیکس نے سکنجبین کا سٹینڈ لگائے رکھا۔نتیجتاً اس نے 10لاکھ ڈالرز کینسر ریسرچ کے لئے جمع کرلئے۔ اگست2004ء میں ، محض 8برس کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔

الیکس کے انتقال کے بعد اس کے والدین اور تین بھائیوں نے ’’الیکسز لیمنیڈ سٹینڈ فاؤنڈیشن‘‘ کو آگے بڑھایا۔ اب یہ فاؤنڈیشن تمام کینسر زدہ بچوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ اس میں بچے بھی شامل ہیں اور بڑے بھی۔ اب پورے ملک میں 8000سکنجبین سٹینڈ لگائے جاتے ہیں۔ تنظیم ہر سال ماہ جون کے ویک اینڈز کو ’’لیمنیڈ ڈیز‘‘(Lemonade Days) کے طور پر مناتی ہے۔ سب کے سب الیکس کی طرح کینسر کے خلاف بھرپور جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ فاؤنڈیشن والے کہتے ہیں کہ یہ سکنجبین سٹینڈز دنیابھر کے لوگوں کے لئے ایک موثرپیغام ہیں کہ اس دنیا کا ہرفرد تبدیلی لاسکتاہے۔ہرسٹینڈپر کھڑے رضاکار جہاں فنڈریزنگ کرتے ہیں، وہاں وہ بچوں کے کینسر کے بارے میں شعور عام کرتے ہیں، اس کے اسباب سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں، اس کے علاج کی بابت آگاہ کرتے ہیں۔اسی طرح یہ فنڈریزنگ بچوں کے کینسر کے بارے میں مزید ریسرچ پر بھی استعمال ہورہی ہے۔

دائلان مہالنگم
’’دائلن! اپنی خوراک ضائع مت کرو، جوکچھ تم ضائع کررہے ہو، بعض اوقات یہ ایک پورے خاندان کو پورا ہفتہ تک نصیب نہیں ہوتا‘‘۔دائلان مہالنگم کہتا ہے کہ ’’ماں کی یہ باتیں کھانے کی میز پر اکثرسننے کو ملتی تھیں، ماں مجھے اپنی پلیٹ میں کچھ بھی چھوڑنے نہیں دیتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتاتھا کہ میں کوئی ایسی ڈیل کرلوں کہ کھانے کے کچھ لقمے کم کھانے پڑیں۔میں بہت جدوجہد کرتالیکن آخرکار مجھے اپنی پلیٹ صاف کرناہی پڑتی تھی۔ بعض اوقات میں منصوبہ بناتارہتا کہ کیسے چپکے سے اپنی پلیٹ کا کھانا کسی دوسرے کی پلیٹ میں منتقل کروں‘‘۔
’’آٹھ برس کا تھا جب میں اپنے گھروالوں کے ساتھ رشتہ داروں سے ملنے بھارت گیا۔ میں نے وہاں غربت کے اسباب کا بغور مشاہدہ کیا۔

میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے بچوں کے لئے روٹی کا انتظام کرنے کے لئے کتنے پاپڑبیلتے ہیں۔ میں نے ایک چھ سالہ بچی مادھوی دیکھی جو ایک اینٹوں والے بھٹے پر کام کررہی تھی،وہ مٹی کو اینٹوں میں تبدیل کررہی تھی۔ وہ سکول جانے کے بجائے زندگی گزارنے کے لئے اپنے والدین کے ہمراہ محنت مزدوری کررہی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ مادھوی کے دادا نے ایک زمین دار سے 6000روپے لئے تھے۔ ان چھ ہزار روپوں نے اس کی آنے والی نسلوں کا مستقبل غارت کردیا۔ ان کو صبح سویرے سے رات کے اندھیرے تک کام کرناپڑتاتھا تاکہ وہ اپنا ادھارچکاسکیں ۔ میرا دل خون کے آنسو رونے لگاجب میں نے سناکہ مادھوی یہ کام چاربرس سے کررہی ہے۔ اور اپنے دادا کا قرض چکانے کی کوشش کررہی ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وہ ایک ایسے ماحول میں کام کرنے پرمجبورتھی کہ جہاں نہ پینے کا صاف پانی میسر تھا، نہ نکاسی آب کا انتظام تھا، نہ صاف رہائش میسرتھی اور نہ ہی صحت کا تحفظ حاصل تھا‘‘۔

’’ اس دن میری جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ میں آج بھی اسے بیان کرنے میں مشکل محسوس کررہاہوں۔ غصہ، فرسٹریشن، اداسی اور بے بسی محسوس کرتے ہوئے میں سوچ رہاتھا کہ میں ہی ان بچوں کی محرومی کا ذمہ دارہوں۔تب مجھے خوراک ضائع کرنے کا اپنا فعل خصوصیت سے یادآیا۔اسی دوران مجھے اپنے والدین کے ساتھ اپنا شاکی رویہ بھی یادآیا کہ میں اکثرشکایات کرتارہتاتھا حالانکہ ہم سب ایک خوش گوار، صحت مند اور معمول کی زندگی گزاررہے تھے۔ مادھوی کے ننھے منے ہاتھوں پر جگہ جگہ کٹ لگے ہوئے تھے۔

نگے پاؤں اور مٹی سے لتھڑے بدن کے ساتھ وہ بعض اوقات12سے14گھنٹے کام کرتی تھی۔اس روز میں نے صرف مادھوی ہی کو کام کرتے نہیں دیکھا بلکہ بہت سے دیگربچوں کو بھی دیکھا۔ان میں سے زیادہ تر کی عمر چھ سے آٹھ برس تھی۔ وہ سارادن چھوٹے چھوٹے تھکن سے بے حال قدموں پر کھڑے رہ کرگزارتے تھے۔ انھیں چلچلاتی دھوپ میں بھی ایسا کرناپڑتاتھا۔ یہ بھٹہ خشت والے بھی ان بچوں سے محنت مزدوری کراکے خوش رہتے ہیں کہ انھیں زیادہ مزدوری دینا نہیں پڑتی اور ان کا کام بھی ہوجاتاہے۔مادھوی کی ماں کاکہنا تھا کہ انھیں کام ، کام اور بس کام ہی کرناہے چاہے یہ بخار میں مبتلاہوں، ان کے پیٹ میں درد ہورہاہو، ہیضہ کاشکارہوں یاپھر زخمی ہوں‘‘۔

’’میری ملاقات تیرہ برس کی سوماتھی سے بھی ہوئی جو ایک آیا کے طورپر کام کرتی تھی۔ اس کی ماں کی تنخواہ انتہائی کم تھی یعنی 1200روپے ماہانہ۔ وہ جس گھرانے میں کام کرتی تھی ان کے ہاں ایک کھانے کا خرچ بھی اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتاتھا۔میں اس کی تنخواہ کا سن کر خود بھی لرزگیا جب میں نے سوچا کہ جب میں اس سے بھی زیادہ رقم کے ساتھ ایک مہینہ تک فلموں کے ٹکٹ خریدتاہوں۔ میں نے سوچا کہ میرے سکول کے بچے کتنے خوش قسمت ہیں۔میں نے سوچا کہ مجھے اپنی زندگی میں کتنی نعمتیں مہیا ہیں ۔

تعلیم ، صحت، میرا خاندان اور اسی طرح کی دیگر نعمتیں۔ سوماتھی نے کبھی سکول کے اندرقدم نہیں رکھا۔ اسے اپنی صلاحیت بہتر بنانے کا کوئی موقع میسرنہیں تھا جسے استعمال میں لاکر وہ کوئی دوسری ملازمت کرسکے۔ اسے غربت سے نجات کی کوئی امید نہیں تھی کیونکہ اسے ایسی کوئی صلاحیت حاصل کرنے کا موقع نہیں مل رہاتھا جو غربت کے چکر سے نکال سکے۔ اس کامطلب تھا کہ اسے بہترمستقبل کی بھی کوئی امید نہیں تھی‘‘۔

’’اس پورے دورے کے دوران میں نے جوکچھ دیکھا، اس نے مجھے خوب بتادیا کہ میری ماں مجھے کھاناضائع کرنے سے کیوں روکتی ہے۔میں بمشکل نوبرس کا ہوں گا۔اور میں سوچتاتھا کہ میں مادھوی جیسے بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لئے کیاکردار اداکرسکتاہوں۔ جب2004ء میں بھارت کے ساحلوں سے سونامی طوفان ٹکرایااور اس کی خبریں ہم نے سنیں تومیری بہن نے میری برین سٹارمنگ کی کہ میں کیاکردار اداکرسکتاہوں۔ میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں رہتے تھے ، وہ بھی سونامی سے متاثرہوئے تھے۔

مجھے زیادہ پتہ نہیں تھا کہ سونامی کیاہوتاہے، اس کی وارننگ علامات کو کیسے دیکھاجاسکتاہے اور ان سے لوگ کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔میں سوچتاتھا کہ ہم لوگوں کی مدد کے لئے ٹیکنالوجی کو کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیاکہ میں مختلف سکولوں کے بچوں کا ایک گروپ قائم کروں گاتاکہ ہم ایک ایجوکیشنل ویب سائٹ بنائیں جس کے ذریعے لوگوں کو سونامی کے تباہ کن اثرات سے آگاہ کریں اور یہاں ہم سونامی متاثرین کے لئے فنڈریزنگ بھی کرسکیں۔پہلے ہفتے میں ہمیں900ڈالرملے جس کے بعد ہم نے ویب سائٹ بنائی، اس کے نتیجے میں ہمارامختلف تنظیموں اور اداروں سے رابطہ ہوا۔ہمیں اپنے کام کی پروموشن کا موقع ملا اور دنیا بھر کے بچوں سے رابطہ بھی ہوا۔ میرے لئے یہ انتہائی حیرت کا مقام تھا کہ جب اگلے چند ماہ کے دوران دنیا بھر کے بچے آپس میں اس طرح مربوط ہوئے کہ ہم نے780000ڈالر جمع کر لئے۔ یہ سونامی متاثرین کے لئے امداد تھی‘‘۔

دائلان مہالنگم کا کہنا ہے ’’میں اس نتیجے پر پہنچاکہ معاشروں میں تبدیلی لانے کے لئے عمرکوئی معنی نہیں رکھتی۔بس! اسی چیز نے مجھے نوجوانوں کے لئے ایک نیاادارہ قائم کرنے کی طرف ابھارا۔ ’’للز ایم ڈی جیز‘‘ کے ذریعے ہم نے دنیا بھرمیں فنڈریزنگ کی جو چائلڈلیبرکے خاتمے میں کام آسکے۔ سب سے پہلے ہم نے وسائل، سامان اور تربیت کے ذریعے مادھوی کے گھروالوں کو ظلم واستحصال کے چنگل سے نجات دلائی۔ اب ان کا چائے خانہ ہے۔ اسی طرح ہم نے سوماتھی کو بھی ایک نئی راہ دکھائی۔ وہ سلائی میں دلچسپی رکھتی تھی۔ ہم نے اسے سلائی مشین لے کر دی۔ اب وہ خوب کمائی کررہی ہے‘‘۔

جب دائلان مہالنگم نے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک غیرمنافع بخش بین الاقوامی تنظیم قائم کی، تب اس کی عمر نوبرس تھی۔ اس تنظیم کا مقصد نوجوانوں کی صلاحیتوں کی نشوونما کرکے انھیں خود مختار بنانا ہے۔اس کے لئے ڈیجیٹل میڈیا کا ہتھیار خصوصیت سے استعمال کیاجارہاہے۔ ان کے پیش نظر یونائیٹڈ نیشنز میلینئم ڈویلپمنٹ گولز ہیں۔اس کی قائم کردہ تنظیم نے دنیا بھر کے30لاکھ بچوں کو متحرک رکھاہواہے۔ وہ مختلف مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے 24ہزار بچے باقاعدگی سے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کا تعلق دنیا کے41 ممالک سے ہے۔ وہ اس وقت15برس کا ہے۔

دائلان مہالنگم انٹرنیٹ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو تعلیم دے رہا ہے، انھیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف کر رہا ہے، اور انھیں طاقت ور بنارہاہے۔جب سونامی آیاتو اس نے اپنے تنظیم کے دیگرارکان کو ساتھ ملاکر780,000ڈالرکی فنڈریزنگ کی۔ جب امریکا میں ہریکین طوفان آیاتو اس نے 10ملین ڈالر اکٹھے کئے، اس نے تبت میں ایک بڑی اقامت گاہ ، بھارت میں ایک موبائل ہسپتال اور یوگینڈا میں ایک سکول کو کھیل کامیدان بناکردیا۔

ڈیوائن براڈلی
دنیا بھر میں ٹین ایجرز کی اکثریت کی دلچسپیوں کا دائرہ گھر، رشتہ داروں اور دوستوں تک ہی محدود رہتاہے لیکن ڈیوائن براڈلی ایک مختلف ٹین ایجر تھا۔ اس پر صرف ایک ہی فکر سواررہتی تھی کہ باہر گھومنے پھرنے والے ٹین ایجرز کو کیسے تعمیری سرگرمیوں میں مصروف کیاجائے۔ جب بھی وہ سکول سے فارغ ہوتاتو گھرتک پہنچتے پہنچتے وہ لڑکوں کو گروہ در گروہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلیوں، بازاروں میں گھومتے پھرتے، گپیں لگاتے دیکھتا۔ اسے احساس ہوا کہ ان لڑکوں کے پاس بہت سا فارغ وقت ہے جو وہ محض ضائع ہی کرتے رہتے ہیں۔اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی آمدن بہت زیادہ نہیں تھی۔

اور ان کے بچے غیرقانونی سرگرمیوں کی طرف تیزی سے ملوث ہورہے تھے۔تشدد، زنا، ایڈز، منشیات، عصمت فروشی، گینگز اور دوسرے خطرناک رویے تیزی سے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے اندرسمورہے تھے۔ڈیوائن اس مسئلے کاحل چاہتاتھا۔اس کے خیال میں کوئی ایسا راستہ تلاش کیاجاناچاہئیے جس پر چلتے ہوئے نوجوان بری عادات سے الگ تھلگ ہوجائیں۔ وہ بھی انہی جیسا ایک نوجوان تھا اور اس کے دوستوں کاخیال تھا کہ وہ تن تنہا اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتا۔تاہم اس نے ان کے خدشات کو غلط ثابت کردکھایا۔

سب سے پہلے اس نے نوجوان نسل کی دلچسپیوں کا جائزہ لیا۔نوجوان فیشن، کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام چیزیں انسان کو سوشل بناتی ہیں اور اس کی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع کرتی ہیں۔آپ ایک بارلوگوں کو ان چیزوں کی طرف لائیں اور اس کے بعد انھیں سمجھائیں کہ ان سے کیسے سیکھاجاسکتاہے اور ان کی مدد سے کیسے معاشرہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ایک ایسے محفوظ مرکز کی ضرورت ہے جہاں تعمیری ماحول ہو اور جہاں بچے سکول سے فارغ ہوکر آئیں اور اپنا وقت گزارسکیں، خود بھی کچھ سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔ اور جہاں وہ دیگربچوں کو بھی آنے کو کہہ سکیں۔

اس کے آئیڈیا کو بہت جلد پذیرائی حاصل ہوئی۔ٹیم ریوولیوشن نے بہت جلدمعاشرے میں تبدیلی کے اثرات کو ظاہر کرنا شروع کردیا۔ اس کے ارکان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس نے فنڈریزنگ مہم چلائی تو محض دوہفتوں کے اندر 25 ہزار ڈالر جمع کرلئے۔اس کی مدد سے کمیونٹی سنٹرتعمیر کیا۔اس میں ایک مووی تھیٹربھی تھا اور ایک ریکارڈنگ سٹوڈیوبھی۔ ٹیم ریوولیوشن نے اپنے ارکان کو سیروسفر کے مواقع فراہم کئے، یوگا اور مراقبوں کے تجربات کرائے۔ یہاں موسیقی، کوریوگرافی کی کلاسز ہونے لگیں۔ موسیقی کے رجحانات پر مباحث ہونے لگے۔

اسی طرح ڈیوائن نے ایک فیلوشپ اکیڈمی بھی قائم کی۔ جس کاایک پروگرام’’ دی بنک‘‘ کے نام سے ہے۔ اس کے ذریعے نوجوانوں کو بتایاجاتاکہ وہ کیسے معاشی ترقی کرسکتے ہیں اور معاشرے میں تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ ایک پروگرام ’’لیڈ‘‘ تھا جس کا مقصد نوجوانوں کو موثرقیادت کے لئے تیارکرناتھا۔ ڈیوائن نے یہ اکیڈمی بعض بڑی کمپنیوں کی سپانسرشپ سے قائم کی تھی، اس طرح نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملا کہ مصنوعات کیسے تیارکی جاتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے اہم کاروباری گربھی سکھائے جاتے تھے۔

ٹیم ریوولیوشن آج بھی 13سے23سال کے لڑکوں اور نوجوانوں کومختلف پروگراموں کے ذریعے تعلیم وتربیت دے رہی ہے۔ اس کی ورکشاپس میں اوسطاً پانچ سو جوان شریک ہوتے ہیں۔ ڈیوائن کی عمر اب 24برس ہے ، اس کا منصوبہ ہے کہ یہ پراجیکٹ مکمل طورپر نوجوانوں کے پاس ہی ہوناچاہئے۔

ڈیوائن براڈلی ،دائلان مہالنگم،کلوڈیٹ کولون،لوئیس بریل، کیٹی سٹیگلیانو،ریان ہریلجیک اورالیگزینڈرا الیکس سکاٹ کی یہ کہانیاں پوری دنیا کے نوجوانوں کوخصوصیت سے روشنی فراہم کرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں پاکستان کی جواں سال نسل کے لئے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ پاکستانی قوم جن سنگین مسائل کا شکار ہے اور ترقی پذیری کے جس مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے، وہاں زیادہ چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔