عوام پر مہنگائی کا ایک اور حملہ، درجنوں اشیا پر 2فیصد اضافی سیلز ٹیکس نافذ

ارشاد انصاری / احتشام مفتی  ہفتہ 5 اکتوبر 2013
آئی ایم ایف شرائط وبیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کے بجائے ریونیوبڑھانے کیلیے مشاورت کی جائے،تاجروں نے اضافہ مستردکردیا
۔فوٹو: فائل

آئی ایم ایف شرائط وبیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کے بجائے ریونیوبڑھانے کیلیے مشاورت کی جائے،تاجروں نے اضافہ مستردکردیا ۔فوٹو: فائل

اسلام آ باد / کراچی: وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کرتے ہوئے بسکٹ، ٹافی، چاکلیٹ، ایئرکنڈیشنر، ریفریجریٹر سمیت2درجن  سے زائداشیا پر2فیصد اضافی سیلزٹیکس عائدکردیا ہے۔

فیبرکس کی درآمداورسپلائی پر 3 فیصد جبکہ کمرشل امپورٹرزکی طرف سے درآمدی فیبرکس کی ویلیوایڈیشن (تیارشدہ ملبوسات)پربھی2فیصدسیلزٹیکس عائدکیاگیاہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے جی ڈی پی کے0.4فیصد کے برابرریونیواقدامات اٹھانے کی شرط پر عملدرآمدکرتے ہوئے ایف بی آرنے گزشتہ روز4نوٹیفکیشن نمبر 895(I)/2013 ، 896(I)/2013 ، 897(I)/2013 اور 898(I)/2013 جاری کیے ہیں تاہم چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ کاکہناہے کہ ان اشیاپر17فیصد سیلزٹیکس کی شرح میں اضافہ نہیں کیاگیا،صرف پرچون قیمت پرنٹ نہ کرنے پر 2فیصد اضافی ٹیکس اداکرنا ہوگا جو17فیصد کی مروجہ شرح سے علاوہ ہوگا۔’’ایکسپریس‘‘ کو جاری کردہ نوٹیفکیشنوں کی جو نقول موصول ہوئی ہیں ان سے معلوم ہواہے کہ ایف بی آر نے جن اشیا پر2فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کیا ہے۔

تاجروں اور مینوفیکچررز کو ان اشیا کی پرچون قیمتیں پیکنگ مٹیریل پر پرنٹ نہیں کرنا پڑیں گی، جن اشیا پر2 فیصد اضافی سیلزٹیکس عائد کیا گیا ہے ان میں اسلحہ، گولہ بارود،مٹھائیاں، بسکٹ، ٹافیاں، چاکلیٹ، ائیرکنڈیشنر، ریفریجریٹر، مائیکرو ویو اوون، پینٹ، ڈسٹمبر، وارنش، ٹائر، ٹیوب اور بیٹریاں، آٹو پارٹس اور اسیسریز، لبریکنٹ آئل، بریک فلیوڈ، ٹرانسمشن فلیوڈ، ٹیپ ریکارڈر اینڈ پلیئرسمیت گھریلو استعمال کی دیگر الیکٹرک اشیا،کوکنگ رینج، گیزر، اوون، گیس ہیٹر، الیکٹرک بلب، ٹیوب لائٹ، پنکھے، الیکٹرانک استری، واشنگ مشین، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون سیٹ سمیت گھریلو استعمال کی دیگر الیکٹرونک مصنوعات، اسٹوریج بیٹریاں،فوم اور سپرنگ میٹرس، فوم کی تیار کردہ دیگر تمام گھریلو مصنوعات، انیملز،لیکرز، پالش اور ٹائلز شامل ہیں۔

اس بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سینئرافسر نے بتایا کہ یہ اقدام طاقتور تاجر لابی کے دباؤپراٹھایا گیا ہے۔ ملکی معیشت کودستاویزی شکل دینااور ریٹیل سیکٹرمیں اربوں کی ٹیکس چوری روکنارواں وفاقی بجٹ میں اٹھائے جانے والے چندبڑے اقدامات میں سے ایک تھاجسے واپس لینے سے صرف تاجرطبقے کوفائدہ ہواہے جبکہ صارفین اورایف بی آرکونقصان ہوگاکیونکہ جودوفیصداضافی ٹیکس عائدکیاگیاہے وہ بالواسطہ ٹیکس ہے جسے تاجروں نے عوام سے وصول کرلیناہے لیکن آگے ایف بی آرتک منتقل نہیں کرناچونکہ تاجر طبقہ عوام سے پوری قیمت وصول کرتاہے مگر ٹیکس بچانے کیلیے ایف بی آرکے پاس ان اشیاکی قیمت فروخت بہت کم ظاہر کرتاہے۔

اگر ان اشیا کی پرچون قیمت پرنٹ کرکے اس پر17فیصد سیلز ٹیکس کی رقم شامل کرنے کی شرط برقراررکھی جاتی تو اس سے ایف بی آرکواربوں روپے کا اضافی ریونیوحاصل ہونا تھااگرچہ 2فیصد اضافی ٹیکس لگانے سے بھی ایف بی آر کو اضافی ریونیو حاصل ہوگا مگر یہ رقم اس سے کہیں کم ہوگی جوپیکنگ مٹیریل پر پرچون قیمت پرنٹ کرنے سے وصول ہونا تھی۔ اس حوالے سے جب چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو طارق باجوہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ان اشیا کیلیے سیلزٹیکس کی17 فیصد کی معیاری شرح میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا۔ البتہ بجٹ میں ان اشیا کیلیے پرچون قیمت پر 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کیلیے مینوفیکچررزکو ان اشیا کی پیکنگ پر پرچون قیمت اور اس میں17فیصدسیلز ٹیکس کی رقم شامل کرکے پرنٹ کرنے کولازمی قرار دیا گیا تھا۔

جس پر تاجروں و مینوفیکچررزکواعتراض تھا،ان کاموقف تھا کہ اس سے ان کیلیے پیچیدگیاں پیداہوتی ہیں اور اس پر عملدرآمدبہت مشکل ہے جسے کوآسان بنانے کیلیے یہ اقدام اٹھایاگیاہے اورریلیف دیاگیاہے کہ جو مینوفیکچرراورتاجر ان اشیا کی پرچون قیمت پیکنگ پر پرنٹ نہیں کرناچاہتے انھیں17فیصدکے معمول کے ٹیکس کے علاوہ2فیصد مزید ٹیکس ادا کرنا ہوگاجبکہ نوٹیفکیشن میں بتایاگیاہے کہ پیکنگ پراشیا کی پرچون قیمت پرنٹ نہ کرنے کی صورت میں اضافی ٹیکس کی شرح0.75 فیصدتھی تاہم پہلے اس شرح کااطلاق ان اشیاپرنہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ اشیا سیلز ٹیکس ایکٹ کے تھرڈشیڈول میں شامل تھیں،اب ان اشیاکوتھرڈشیڈول سے نکال دیا گیاہے۔

اس لیے اب یہ اشیاان کٹیگریزمیں شامل ہوگئی ہیں جن پراضافی ٹیکس کی شرح 0.75 فیصدہے جسے اب نوٹیفکیشن نمبری 895(I)/2013 کے ذریعے بڑھاکر2فیصد کردیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 30ارب سے زائد کا ریونیو شارٹ فال ہے جسے پورا کرنے کیلیے اورآئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلیے یہ اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔دریں اثنا ایف بی آر نے اپنے وضاحتی بیان میں کہاہے کہ ٹیلی ویژن سیٹ،ٹیلی فون سیٹ، گھریلو استعمال کے گیس اور بجلی کے آلات سمیت تھرڈ شیڈول سے نکالی جانیوالی اشیا پر صرف مینوفیکچررز کی سطع پردو فیصد اضافی سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا لیکن اس کے بعد کے بعد مراحل پر ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کی سطح پر ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیاہے۔

کراچی چیمبرآف کامرس نے روزمرہ استعمال کی مصنوعات پرجنرل سیلزٹیکس کی شرح یک جنبش قلم2فیصداضافے کو مستردکرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے اس معاملے پربھی ازخودنوٹس لینے کا مطالبہ کردیاہے، کراچی چیمبر نے وفاقی حکومت کومتنبہ کیاہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی آڑ میں ایف بی آرکی نااہل بیوروکریسی کے منفی ہتھکنڈوں کے زیراثرہونے کے بجائے تجارتی ایوانوں کے نمائندگان کے ساتھ ریونیوبڑھانے کے لیے مشاورت کرے،کراچی چیمبر آف کامرس کے صدرعامرعبداللہ ذکی نے جمعے کو ایف بی آر کی جانب سے ایس آراونمبر895 ،896 ،897 اور898 کے اجراپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان نئے اقدامات سے مہنگائی میں فوری طور پر4.35 فیصدکامزیداضافہ ہوجائے گا۔

جبکہ تاجروصنعتکارموجودہ حکومت کے مختصراقتدارمیں عجیب وغریب فیصلوں سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں جویکطرفہ حکومتی اقدامات کے خلاف اب کراچی چیمبر پرطویل دورانیے کی ہڑتال کیلیے دباؤڈال رہے ہیں، عبداللہ ذکی نے بتایاکہ ایک عام آدمی کی ماہوارآمدنی بڑھانے کیلیے تواقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں لیکن ایف بی آرکی بیورو کریسی ریونیوبڑھانے کے سہل ترین اقدامات کے ذریعے عام آدمی کی زندگی کواجیرن ضرورکررہی ہے،جمعے کوایف بی آرکی جانب سے سیلزٹیکس کی شرح17 سے بڑھاکر19فیصدکرنے کے نتیجے میں کراچی کے تمام بازاروں،صنعت وتجارتی شعبوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اورلوگوں میں غیریقینی رحجان مزیدبڑھ گیاہے اوریہ منفی رحجان صنعتکاری اور تجارت وسرمایہ کاری کے فروغ میں مزیدرکاوٹ کاباعث بنے گی،یوں محسوس ہوتاہے کہ حکومت ایف بی آرکی بیوروکریسی کی ایماپرچندماہ میں مزیدلاکھوں خاندانوں کوغربت کی لکیرکے نیچے لاناچاہتی ہے۔

ایسوسی ایشن آف سوئیٹس اینڈنمکوکے صدراور فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈانڈسٹری کے چیئرمین ایس ایم تحسین نے ایف بی آرکی جانب سے جمعے کوسیلزٹیکس کی شرح میں دوفیصداضافے کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آرکے اسی نوعیت کے اقدامات سے ٹیکس نیٹ میں توسیع نہیں ہورہی ہے اورنہ ہی ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب بڑھ رہاہے کیونکہ ایف بی آرکی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ وہ سیلزٹیکس میں رجسٹرڈہونے والے مینوفیکچررزپرہی ٹیکسوں کامزید بوجھ لادتی چلی آرہی ہے،انھوں نے بتایاکہ سیلزٹیکس کی شرح2فیصدبڑھنے سے اشیائے خورونوش کی صحت مندانہ ماحول میں مینوفیکچرنگ کرنے والی کمپنیوں کی برانڈڈپروڈکٹس کی پیداواری لاگت مزیدبڑھنے سے خوردہ سطح پران کی قیمتوں میں بھی3تا4.5فیصدکااضافہ ہوجائے گاجس کے منفی اثرات ان کمپنیوں کی پروڈکٹس کی فروخت پرمرتب ہوں گے اوران کے مستقل کسٹمرزدیگرغیررجسٹرڈ کمپنیوں کے پروڈکٹس سستی قیمتوں پرخریدنے کوترجیح دیں گے، انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی اکنامک ٹیم میں ایسے پروفیشنلز کی تقرریاں کرے جوعالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن کے بجائے پاکستان میں جاری حالات اورماحول کے تناظرمیں پالیسیاں مرتب کریں،تب ہی ٹیکس نیٹ میں توسیع اورریونیووصولیوںکاحجم بڑھ سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔