بھارتی سفارتکار خاتون اور ریمنڈ ڈیوس

نصرت جاوید  جمعرات 19 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنے مالی اور فوجی وسائل کے بل بوتے پر ان دنوں دُنیا کی واحد سپر طاقت بنے امریکا کی رعونت تو اب ایک جانی پہچانی حقیقت بن چکی ہے۔ بھارت مگر اس حوالے سے بڑھکیں لگاتا ذرا عجیب سا لگ رہا ہے۔ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ آبادی کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے من موہن سنگھ کی رہنمائی میں خود کو بڑی تیزی سے نئے عالمی اقتصادی نظام کا حصہ بھی بنا لیا۔ دُنیا بھر کے سوچنے سمجھنے والوں کا ایک بڑا حصہ مستقبل کے تناظر میں چین اور بھارت کو دو ابھرتی ہوئی قوتوں کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس پسِ منظر میں کچھ بھارتیوں کو یہ اعتماد بھی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کا علمبردار ہوتے ہوئے امریکا شاید اسے چین کا ایک بہتر متبادل بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ سب مگر امکانات ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ایک طویل سفر درکار ہے۔ فی الحال تو بھارت اپنی اتنی بڑی آبادی اور تیزی سے ترقی پاتی معیشت کے ہوتے ہوئے بھی ایک غریب ملک ہے جسے عالمی منظر پر اپنے حقیقی حد تک سے زیادہ بڑا نظر آنے کی کوششیں نہیں کرنا چاہیے۔

بھارتی اشرافیہ کی مجبوری مگر یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں اس نے خود کو ایک ایسی ’’ایمپائر‘‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا جو اشوکا اور اکبر اعظم ہی نہیں لارڈ کرزن کے بنائے ’’برٹش انڈیا‘‘ سے منسلک ’’عظمتوں‘‘ کی وارث بھی ہے۔ خود کو صرف ایک ملک نہیں بلکہ Empire کے طور پر دُنیا کے سامنے لانے کے لیے نہرو نے اپنی وزارتِ خارجہ پر خاص توجہ دی۔ اس وزارت سے متعلقہ لوگوں میں وہ ساری عادات کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کی جو تاریخی حوالوں سے بڑی سلطنتوں سے متعلقہ سفارتکاروں سے منسوب کی جاتی تھیں۔ امریکا اور بھارت کے درمیان اِن دنوں سفارتی محاذ پر جو قضیہ چل رہا ہے وہ درحقیقت ان ہی عادتوں اور روایتوں کا شاخسانہ ہے۔

ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کا جائزہ لیں تو بات صرف اتنی ہے کہ بھارت کی نیویارک میں متعین کی ہوئی ایک ڈپٹی قونصل جنرل تھیں۔ دیویانی ان کا نام ہے۔ وہ نیویارک جاتے ہوئے اپنے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کاج کے لیے ایک نوکرانی بھی ساتھ لے گئیں۔ اس نوکرانی کے لیے امریکا کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے حلفاََ یہ بیان دیا گیا کہ اس نوکرانی کو امریکا میں اپنے قیام کے دوران وہاں کے قانون کے مطابق ہر ماہ کم از کم 4,500 ڈالر دیے جائیں گے۔ نیویارک آ جانے کے بعد البتہ اس نوکرانی کو ہر ماہ صرف 573 ڈالر ملے۔ پتہ نہیں کیسے وہ بالآخر پولیس تک پہنچ گئی اور وہاں کی حکومت نے دیویانی کو گرفتار کر لیا۔

اپنے ایک ’’سفارتکار‘‘ کی محض گرفتاری پر شاید بھارت اتنا چراغ پا نہ ہوتا۔ نئی دہلی والوں کو زیادہ غصہ اس بات پر بھی آیا کہ ان کی ’’سفارت کار‘‘ کو گرفتاری کے بعد ہتھکڑی لگا کر تھانے لے جایا گیا۔ وہاں اسے حوالات میں ڈالنے سے پہلے اس کے سارے کپڑے اتروائے گئے اور پھر اسے منشیات کے عادی مجرموں سے بھرے ایک Cell میں ڈال دیا گیا۔ بھارت کا اصرار ہے کہ ایک مستند سفارت کار ہوتے ہوئے دیویانی کو ان تمام مراحل سے گزارنے کی ضرورت نہ تھی۔ مختلف عالمی معاہدوں میں طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے ان تمام ذلتّوں سے استثنیٰ حاصل تھا۔ امریکی Diplomatic Immunity کی ایسی تعبیر کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ بضد ہیں کہ سفارت کاروں کو صرف اپنے سرکاری فرائض کے حوالے سے کوئی استثنیٰ ملتا ہے۔ اپنی ذاتی حیثیت میںکسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی سفارت کار استثنیٰ کے حق کو استعمال نہیں کر سکتا۔ نظر بظاہر دیویانی نے اپنی ذاتی حیثیت میں دو امریکی قوانین کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔ ایک قانون کو توڑنے کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال ہے اور دوسرے کی پانچ سال ہے۔

اس کالم کے لکھتے وقت بھی امریکی اپنی بات پر ڈٹے نظر آ رہے تھے۔ جواباََ بھارت میں بہت زیادہ غصہ نظر آ رہا ہے۔ وہاں کے ایک سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اگر مقامی قوانین کا احترام سفارت کاروں کے لیے بھی از حد ضروری ہے تو امریکا کے کئی مستند سفارت کاروں کو اس بنیاد پر فوراََ گرفتار کیا جا سکتا ہے کہ انھوں اپنے ہی ہم جنسوں سے شادی کر رکھی ہے جو بھارتی قوانین کے مطابق ایک سنگین فوجداری جرم ہے۔

دیویانی کی گرفتاری کے بعد سے بھارتی میڈیا میں جو شور و غل برپا ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ جلد ہی اس قضیے کا کوئی حل نکل آئے گا اور دونوں ممالک کی حکومتیں اس واقعے کو بھول کر معمول کے تعلقات کی سطح پر واپس آ جائیں گی۔ اصل بات جو اس قضیے میں بے دردی سے نظرانداز ہو رہی ہے وہ بھارت اور اس جیسے ملکوں کی اشرافیہ کا وہ سلوک ہے جو وہ اپنے گھریلو ملازمین سے روا رکھتے ہیں۔ اپنے گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیوں کو ہم لوگ زر خرید باندیوں کی صورت رکھتے ہیں اور ان کی حالتِ زار کا خوش حال متوسط طبقے کے بڑے ڈرائنگ روموں میں بیٹھے ’’اصول اور انسان پسند‘‘ بنے لوگ کبھی ذکر ہی نہیں کرتے۔ اس قضیے میں بھی ذکر صرف دیویانی اور اس کے سفارتی استثنیٰ کا ہو رہا ہے۔ اس نوکرانی کا نام بھی میرے جیسے لوگوں کو معلوم نہیں جسے 500 ڈالر ماہانہ دے کر نیویارک میں دن رات مشقت کرنے کا پابند بنا دیا گیا تھا۔

پاکستانیوں کو اس قصے میں ریمنڈ ڈیوس یاد آ گیا ہے جس کو صدر اوبامہ نے اپنی زبان سے ایک سفارت کار قرار دے کر اس کے لیے Immunity مانگی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے انسانی حقوق کا چیمپئن بنے ایک طاقتور ملک کا سربراہ انتہائی سفاکی سے یہ بات بھول گیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو بے گناہ نوجوانوں کو انتہائی بے دردی سے دن دیہاڑے قتل کیا تھا۔ اس کا یہ فعل ہرگز ان اعمال میں شمار نہیں ہوتا تھا جو ایک سفارت کار کے ’’سرکاری کام‘‘ میں سرانجام دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب ریمنڈ ڈیوس کو عبرت ناک سزا دینے کے مطالبے ہو رہے تھے تو میں اصرار کرتا رہا کہ بالآخر وہ خیرخیریت سے اپنے ملک واپس لوٹ جائے گا۔ آخر کار ہوا بھی یہی۔ مگر اس وقت ہمیں اپنی اس وقت کی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اس نے صدر اوبامہ کے ایک واضح بیان اور دعوے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو ’’سفارت کار‘‘ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسے ایک عام قاتل کی حیثیت میں کئی دن تک گرفتار رکھا گیا اور ڈیوس کو رہائی اسی وقت نصیب ہوئی جب اس نے اسلامی قوانین کا سہارا لیتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے بعد مقتولوں کے ورثا کو خون بہا کے نام پر خطیر رقوم ادا کر دیں۔ ماضی کی حکومت کے ساتھ اپنی اندھی نفرت کے سبب ہمارے میڈیا نے اس بڑے ہی اہم پہلو کو کبھی واضح طور پر بیان ہی نہیں کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔