عدم برداشت

بشیر واثق  اتوار 23 فروری 2014
پاکستانی معاشرے میں  گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستانی معاشرے میں گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ فوٹو : فائل

 انسانی معاشرہ ایک گل دستے کی طرح ہے جس طرح گل دستے میں مختلف رنگ کے پھول اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذہب اور مختلف النسل کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے ، اگر کسی جگہ ایک ہی نسل اور مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو اسے ہم معاشرتی گروہ تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے کلیتاً معاشرے کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔

تاہم معاشرے کی مختلف اقسام ضرور ہوتی ہیں جیسے مذہبی معاشرہ، کمیونسٹ معاشرہ وغیرہ، مگر ان میں بھی ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں، کسی غالب اکثریت کی وجہ سے ایسے معاشرے کو ایک خاص قسم سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جیسے روس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ معاشرہ ہے اسی طرح ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی معاشرہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ان معاشروں میں دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ موجود نہیں ہیں ، وہاں ہر نسل، ہر سوچ اور مذہب کے افراد موجود ہیں مگر غالب اکثریت چونکہ اقتدار میں بھی ہے اس لئے انھی کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے ۔

میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔

ٹریفک سگنل کو ہی لے لیں ، وہاں پر کھڑا ہر فرد دوسرے سے جلدی میںدکھائی دیتا ہے خاص طور پر موٹر سائیکل سوار تو اشارہ کھلنے کا بھی انتظار نہیں کرتے، ابھی سگنل سبز سے سرخ بھی نہیں ہوتا کہ وہ موٹرسائیکل بھگا لے جاتے ہیں اور اگر سگنل پر ٹریفک اہلکار موجود نہ ہو تو پھر سگنل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، افراتفری کے عالم میں چوراہے کو پار کرتے ہیں، اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاًمعاملہ تھانے کچہری میں چلا جاتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو یقینا ً دوسرے کو بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کرنا پڑے گا اور معاملہ وہیں رفع دفع ہو جائے گا، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کا چلن بالکل بدل چکا ہے، بات کو ختم کرنے کی بجائے بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔

عدم رواداری کے اس بڑھتے ہوئے خوفناک رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آ رہے ہیں کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے ڈیفنس میں بھی تشدد کا ایک ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا۔ ایم اے او کالج کے پروفیسر سلمان رفیق کے گھر ایک 14سالہ ملازمہ فضہ بتول پانچ سال سے کام کرتی تھی ۔ پروفیسرسلمان گزشتہ ایک ماہ سے اس پر تشدد کر رہا تھا جب اس کی حالت غیر ہوئی تو ہسپتال میں داخل کرا دیا جہاں پر میڈیکل رپورٹ میں جنسی زیادتی بھی ثابت ہوئی ۔ فضہ پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکی اور دو روز کے بعد چل بسی ۔ پروفیسر سلمان رفیق نے اپنا جرم تسلیم کر لیا۔ اس واقعے کے بعد ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی پڑھے لکھے مہذب انسان سے ایسی بہیمانہ واردات سرزد ہونے کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم معاشرتی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ پڑھے لکھے افراد بھی ایسی وارداتوں کا ارتکاب کرنے لگے ہیں ۔

مذہب انسان کو اخلاق کا درس دیتا ہے، اس کے اندر ایسے اعلٰی اوصاف پیدا کرتا ہے کہ وہ بہترین انسان بنے اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو ، مگر ہمارے معاشرے میں مذ ہب کو ہی سب سے زیادہ جارحیت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ، مختلف مکتبہ فکر کے اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ مختلف فرقے کے افراد ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہیں ۔ اب تک ہزاروں افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ کچھ مذہبی گروہ مذہب کو بالکل ہی مختلف انداز میں استعمال کر رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کا پسندیدہ مذہب نافذ کیا جائے اور اس کے لئے مسلح جد وجہد کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام تو میانہ روی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کر دینے کو افضل قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح دوسرے مذاہب چاہے وہ الہامی ہیں یا انسانوں کے بنائے ہوئے سب میں دوسروں کو برداشت کرنے کا درس دیا گیا ہے ، مگر بدقسمتی سے مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی بجائے اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی جاتی ہے، یوں مذہب سوسائٹی کی اصلاح کی بجائے لڑائی جھگڑے اور فساد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسی بنیاد پر لبرل طبقہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینے پر زور دیتا ہے، حالانکہ مذہب ذاتی معاملہ نہیں ہے یہ تو طرز معاشرت ہے یعنی مذہب کو عام زندگی میں برتا جائے، اگر لبرل طبقہ کی اصول پرستی اور اخلاقیات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بہت سے اصول الہامی مذاہب سے ہی اخذ کیے گئے ہیں، گویا انھیں بھی کہیں نہ کہیں مذہب کا سہارا لینا ہی پڑا ہے ۔ مذہب کا مقصد ہی معاشرے سے برائی کا خاتمہ کر کے امن و سکون قائم کرنا ہے تو پھر اسے ذاتی معاملہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم دوسروں پر زبردستی اپنی سوچ تھوپنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی اور یہی مذہب سکھاتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی ہے جس کا دل اسلام کی حقانیت تسلیم کر چکا ہو جب معاملہ دل کا ہے تو بات محبت سے دل میں اتاری جا سکتی ہے ناکہ زبردستی ۔

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان میں اضافے کی بڑی وجہ معاشرتی مسائل ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی بری طرح پس رہا ہے جیسے مہنگائی ، بیروزگاری، عدم تحفظ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ۔

پاکستانی سوسائٹی میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر عمرانیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا کہتے ہیں ’’ہماری سوسائٹی میں جہالت اور تنگ نظری بہت زیادہ ہے، علم کا پھیلاؤ نہیں ہے ، جہالت کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں وہی ٹھیک ہے یعنی ہم مختلف آراء جاننے کی بجائے اسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں جو ہمارے مطابق ٹھیک ہوتا ہے ، اس کی مثال یو ٹیوب کی بندش سے لے لیں کہ اسے صرف اس لئے بند کیا گیا کہ وہ ہمارے مطابق نہیں ۔ جہاں جہالت ہو گی وہاں عدم برداشت بڑھے گی، یہی کچھ ہماری سوسائٹی کے ساتھ ہو رہا ہے، یہاں تو یہ حال ہے کہ پولیو کی ٹیم پر گولیاں چلائی جاتی ہیں ۔ ہمیں اپنے معاشرے میں سائنٹیفک نالج بڑھانا ہو گا تا کہ حقیقت پسندانہ سوچ بڑھے جس سے معاشرے میں توازن پید ا ہو گا ، آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لئے کام کرنا ہو گا اس سے عام آدمی کا ویژن وسیع ہو گا ، جس کا خاطر خواہ اثر معاشرے پر پڑے گا اور جارحیت ، غصہ اور تشدد میں کمی ہو گی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے کلچر کی ترویج ہو گی۔‘‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز نے عدم برداشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے میں یہ ایک بہت بڑی برائی پیدا ہو گئی ہے کہ ہم ہر چیز کو اتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، جیسے اگر کسی ملازمت کے لئے 100 سیٹیں ہیں اور اس کے لئے ایک ہزار افراد نے درخواست دے رکھی ہے تو ہر کوئی یہی چاہے گا کہ اس کی ملازمت ضرور ہو ، حالانکہ سوچ تو یہ ہونی چاہئے کہ جو 100 لوگ اس کے اہل ہیں ان کو نوکری ملے اور دوسرے اسے کھلے دل سے تسلیم کر لیں۔ مگر یہاں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے اسے ضرور ملے، یوں ہر فرد ٹنشن کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہ ٹنشن اس کی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معاشرتی ناہمواریاں بھی عدم برداشت کی بہت بڑی وجہ ہیں، جو لوگ وسائل پر قابض ہیں ان کے خلاف بہت زیادہ غصہ پایا جاتا ہے، عام آدمی اسے اپنے ساتھ ناانصافی تصور کرتا ہے۔

سیاست کو ہی لے لیں، اپوزیشن حکومت کو گرانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، میڈیا بھی ایسی ہی خبروں کو اچھالتا ہے، اگر کوئی سیاستدان کشادہ دلی سے دوسرے کا موقف تسلیم کر لیتا ہے تو اسے بزدل قرار دیا جاتا ہے، یوں کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں رواداری کا درس دیتا ہے مگر ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے ، کسی بھی فورم پر رواداری اور دوسروں کو برداشت کرنے کی بات نہیں ہوتی ، اگر ہر فورم پر چاہے وہ مذہبی ہو ، معاشرتی ہو یا پھر سیاسی، رواداری کی بات کی جائے تو اس سے معاشرے میں پایا جانا والا یہ تناؤ، غصہ ، تشدد خود بخود کم ہونا شروع ہو جائے گا۔‘‘

روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے ، معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے چاہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کے لئے انھوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ایک خاتون اگر بازار میں خریداری کرنے جاتی ہے تو اس میں اس وجہ سے غصہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔

یہ غصہ پورے معاشرے میں ہے اور جس کا اظہار کبھی احتجاج کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں ، جرائم بڑھ رہے ہیں ، فرقہ واریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام رواداری کا درس دیتا ہے، اگر ہم لوگ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت ہر فورم پر رواداری کو اجاگر کرنے کے لئے کوشش کرے ، مذہبی و سماجی رہنما اس حوالے سے خاص طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عوام میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اس سے عوام کو ذہنی سکون ملے گا۔ اس سے بھی عوام میں پایا جانے والا خوف یا غصہ کم ہو گا ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔