ریمنڈ ڈیوس۔ اصل حقائق

جاوید چوہدری  جمعرات 17 اپريل 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ریمنڈ ڈیوس کا تعلق امریکا کی ریاست کولوراڈو سے تھا‘ یہ جاسوسی‘ ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی افیئرز کا ایکسپرٹ تھا‘ یہ  ’’کانٹریکٹر‘‘ کی حیثیت سے سی آئی اے کے ساتھ کام کرتا تھا‘ سی آئی اے مختلف ممالک میں اپنے مختلف مشنز کے لیے عارضی بھرتیاں کرتی ہے‘ امریکا کی مختلف پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیاں اور جاسوسی کمپنیاں سی آئی اے کو عارضی ملازمین فراہم کرتی ہیں‘ یہ ملازمین پرائیویٹ کمپنیوں کے پے رول پر ہوتے ہیں‘ سی آئی اے کمپنیوں کو کام دیتی ہے اور یہ کمپنیاں ریمنڈ ڈیوس جیسے ملازمین کو مشن سونپ دیتی ہیں‘ یہ لوگ کانٹریکٹرز کہلاتے ہیں‘ امریکا کو دو مئی 2011ء کے آپریشن سے قبل اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی چنانچہ سی آئی اے نے ہزاروں کی تعداد میں کانٹریکٹر بھرتی کیے‘ امریکا میں موجود پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ویزے لگوائے اور یہ کانٹریکٹرز پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلا دیے‘ 2010-11ء میں صرف اسلام آباد میں ہزار سے زائد کانٹریکٹرز تھے۔

یہ لوگ پرائیویٹ گھروں میں رہتے تھے‘ امریکی سفارتخانے کے کاغذات استعمال کرتے تھے‘ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے تھے اور انھیں راستہ روکنے یا مزاحمت کرنے والوں کو گولی تک مارنے کی اجازت تھی‘ ریمنڈ ڈیوس بھی کانٹریکٹر تھا‘ یہ کسی خفیہ مشن کی تکمیل کے لیے لاہور پہنچا‘ یہ لاہور کے امریکی قونصل خانے میں رہتا تھا‘ قونصل خانے کی گاڑیاں استعمال کرتا تھا اور سارا دن شہرکے مختلف حصوں میں پھرتا رہتا تھا‘ یہ 27 جنوری 2011ء کی صبح پرائیویٹ کار پر قونصل خانے سے نکلا‘ لاہور کے دو نوجوانوں محمد فہیم اور فیضان حیدر نے اس کا پیچھا کیا‘ یہ پریشان ہو گیا اور اس نے مزنگ کے قرطبہ چوک پر دونوں نوجوانوں کو گولی مار دی۔

یہ گولی مارنے کے بعد گاڑی سے اترا اور اس نے موبائل سے ان دونوں مقتولین کی تصویریں بنائیں‘ ریمنڈ ڈیوس کو ریسکیو کرنے کے لیے قونصل خانے سے خصوصی ٹیم نکلی‘ یہ ٹیم سفید رنگ کی ٹویوٹا لینڈ کروزر میں سوار تھی‘ انھوں نے ون وے کی خلاف ورزی کی‘ نوجوان عبادالرحمن ان کی گاڑی کی زد میں آیا‘ گاڑی نے اس کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور یہ نوجوان گاڑی تلے روندا گیا‘ لوگ اکٹھے ہوئے‘ پولیس آئی اور ریمنڈ ڈیوس گرفتار ہوگیا‘ میڈیا کو علم ہوا تو بات پورے ملک میں پھیل گئی‘ یہ وہ کہانی ہے جس سے پوری قوم واقف تھی‘ میں اب اس کہانی کا وہ حصہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں جو زیادہ تر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔

آصف علی زرداری اس وقت صدر تھے‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم‘ رحمن ملک وزیر داخلہ‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف‘ جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی اور افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان۔ ریمنڈ ڈیوس کی کہانی کا خفیہ حصہ ان تمام لوگوں کے گرد گھومتا ہے‘ اس خفیہ حصے میں تھوڑے عرصے کے لیے سینیٹر جان کیری‘ شاہ محمود قریشی اور میاں شہباز شریف بھی آتے ہیں‘ لیون پنیٹا اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے‘ جنرل پاشا نے فوری طور پر لیون پنیٹا سے رابطہ کیا اور ان سے کہا ’’ لیون اگر یہ آپ کا بندہ ہے تو آپ مجھے اسی وقت بتا دو‘ میں اسے شام سے پہلے چھوڑ دوں گا‘‘ لیون پنیٹا نے جواب دیا ’’ نہیں یہ ہمارا بندہ نہیں‘ یہ حقیقتاً ڈپلومیٹ ہے‘‘ جنرل پاشا مطمئن ہوگئے لیکن لیون پنیٹا کا دعویٰ غلط نکلا‘ ریمنڈ ڈیوس بعد ازاں سی آئی اے کا کانٹریکٹر ثابت ہوگیا‘ پاکستانی حکام آج تک پریشان ہیں‘ لیون پنیٹا نے جنرل پاشا سے جھوٹ کیوں بولا تھا‘ ان لوگوں نے صدر اوبامہ سے بھی غلط بیانی کی تھی۔

صدر اوبامہ نے اس غلط بیانی کی بنیاد پر 15 فروری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کو ڈپلومیٹ ڈکلیئر کردیا اور اس غلط بیانی نے آنے والے دنوں میں امریکا کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا‘ حکومت‘ فوج اور آئی ایس آئی نے ریمند ڈیوس کو ملک میں رکھنے اور ٹرائل کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن معاملہ بہت الجھ گیا اور امریکا اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے‘15 فروری 2011ء کو سنیٹر جان کیری پاکستان آئے‘ یہ پاکستان کے دوست ہیں‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جان کیری کو روکنے کی کوشش کی‘ جنرل کیانی نے جان کیری کو فون کیا اور ان سے کہا’’آپ پاکستان نہ آئیں‘ آپ ہمارے دوست ہیں‘ ہمیں انکار کرتے ہوئے شرمندگی ہوگی‘ہم ریمنڈ ڈیوس آپ کے حوالے نہیں کر سکیں گے‘‘ لیکن جان کیری اس کے باوجود پاکستان آگئے‘ یہ پہلے لاہور گئے‘ میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور یہ پھر اسلام آبادآئے‘ شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا‘قریشی صاحب اس وقت تک کابینہ سے الگ ہو چکے تھے یوں یہ معاملہ مزید خراب ہوگیا۔

یہ خرابی مارچ کے پہلے ہفتے تک چلتی رہی‘ مارچ کے شروع میں حکومت اچانک نرم پڑ گئی‘ صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں اعلیٰ سطحی میٹنگ بلوائی‘ میٹنگ میں صدر‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جنرل پاشا اور وزیرداخلہ رحمن ملک شریک تھے‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا جب بھی اس قسم کی میٹنگ میں جاتے تھے تو یہ پوری میٹنگ میں خاموش بیٹھے رہتے تھے‘ یہ دونوں اس بار بھی فیصلہ کر کے گئے تھے ہم کسی صورت منہ سے ایک لفظ نہیں نکالیں گے‘ میٹنگ شروع ہوئی تو صدر نے اعلان کیا ’’ریمنڈ ڈیوس پاکستان اور امریکا کے تعلقات سے بڑا نہیں‘ ہم نے اس بلا سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘ وہ اس کے بعد جنرل کیانی سے مخاطب ہوئے ’’آپ جنرل پاشا سے کہیں یہ ہماری اس معاملے میں مدد کریں‘‘  جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور دونوں خاموش رہے۔

رحمن ملک نے ہاتھ اٹھایا اور کہا ’’جناب صدر آپ یہ ٹاسک مجھے دے سکتے ہیں‘‘ صدر نے فوراً جواب دیا ’’رحمن نہیں‘ یہ تمہارے بس کی بات نہیں یہ کام جنرل پاشا کو کرنے دو‘‘ صدر نے دوبارہ جنرل کیانی سے کہا ’’ آپ جنرل پاشا کو کہیں یہ ہماری مدد کریں‘‘ جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور انھیں بولنے کا اشارہ کردیا‘ جنرل پاشا نے کہا ’’ سر ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے مگر مسئلہ حل نہیں‘ اس حل کی اونر شپ ہے‘‘ جنرل پاشا کا کہنا تھا ’’ ریمنڈ ڈیوس جب رہا ہو گا تو ملک میں کہرام برپا ہو جائے گا‘اس وقت بدنامی کا یہ ڈھول کس کے گلے میں پڑے گا‘ یہ اہم ہے‘‘ صدر نے فوراً جواب دیا ’’ حکومت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے اگلے دن پریس ریلیز جاری کرے گی اور ہم اس پریس ریلیز کے ذریعے یہ ذمے داری اٹھا لیں گے‘ آپ یہ فکر نہ کریں‘ آپ بس کام کریں‘‘ میٹنگ میں فیصلہ ہوا لواحقین کو خون بہا دے کر راضی کیا جائے گا‘ یہ ملزم کو معاف کردیں گے‘ میٹنگ میں فیصلہ ہوا جنرل پاشا تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے ملیں گے اور یہ انھیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے قائل کریں گے‘ یہ بھی فیصلہ ہوا جنرل پاشا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی مدد کے لیے تیار کریں گے‘ جنرل پاشا نے تینوں ذمے داریاں اٹھا لیں۔

جنرل احمد شجاع پاشا نے اس کے بعد تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی‘ تمام لیڈروں کا خیال تھا ’’ہمیں ریمنڈ ڈیوس کے بھوت سے جلد از جلد جان چھڑا لینی چاہیے‘‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جنرل پاشا کے سامنے اس خطرے کا اظہار بھی کیا ’’ریمنڈ ڈیوس کی جان کو خطرہ ہے‘ ہمیں اندیشہ ہے‘ سرکاری گارڈز اسے قتل  کر دیں گے‘‘ یہ خدشہ درست تھا کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کے سرکاری محافظ وردی پر ایک مذہبی جماعت کے بیجز لگاتے تھے ‘ ان لوگوں نے جج کے حکم کے باوجود یہ بیجز اتارنے سے انکار کردیا تھا۔

جنرل پاشا کے ادارے نے لواحقین کوخون بہا لینے پر تیار کرلیا‘ ادارے کے لوگ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی ملے‘ چوہدری صاحب نے بھی ’’کو آپریٹ‘‘ کرنے کا وعدہ کرلیا‘ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا دن طے ہوگیا‘ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے قبل میاں نواز شریف طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے جب کہ میاں شہباز شریف بڑے میاں صاحب کی عیادت کے لیے اچانک بیرون ملک روانہ ہوگئے‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خفیہ فنڈسے جنرل پاشا کو خون بہا کی رقم ٹرانسفر کی‘ جنرل پاشا نے رقم لواحقین کو ادا کر دی‘16 مارچ کے دن امریکی سفیر کیمرون منٹر خصوصی طیارہ لے کر لاہور چلے گئے‘ جنرل پاشا اس وقت اسلام آباد میں تھے‘ کیمرون منٹرلاہور سے مسلسل جنرل پاشا کے ساتھ رابطے میں تھے‘ ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیش کیا گیا‘جج صاحب کو چیف جسٹس کا پیغام مل چکا تھا‘ لواحقین نے ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردیا۔

ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا آرڈر جاری ہوا‘ یہ خصوصی گاڑی میں بیٹھا‘ائیرپورٹ پہنچا اور جہاز اسے لے کر بگرام روانہ ہوگیا‘ ریمنڈ ڈیوس کے روانہ ہوتے ہی یہ خبر پنجاب حکومت کے ذرایع سے میڈیا کو لیک ہو گئی‘ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ جنرل پاشا اگلے دن صدر آصف علی زرداری سے ملے ‘ ان کو وعدہ یاد دلایا اور ان سے درخواست کی ’’آپ پریس ریلیز جاری کر کے صورتحال کلیئر کر دیں‘‘ صدر نے ہنس کر جواب دیا’’ جنرل صاحب چھوڑیئے رات گئی بات گئی‘یہ معاملہ پنجاب حکومت کے گلے پڑرہا ہے تو ہمیں بے عزتی کرانے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ بھگت رہے ہیں‘ انھیں بھگتنے دیں‘‘ جنرل پاشا نے بڑے عرصے بعد اپنے ایک ساتھی کو یہ واقعہ سنایا اور اس سے کہا’’ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں‘ آپ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیوں نہیں کرتے‘ میں ان لوگوں کو کیسے بتاؤں‘ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ان کا احترام کیسے کروں؟‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔