میرا صحافی۔ تیراصحافی

جاوید چوہدری  پير 21 اپريل 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میرا حامد میر کے ساتھ بیس سال کا تعلق ہے‘ یہ 1994ء میں ملک کے نوجوان ترین ایڈیٹر تھے اور میں ان کا ماتحت تھا۔  یہ نوجوان باس تھے اور میں نوجوان ماتحت چنانچہ ہماری روزانہ چپقلش ہوتی تھی‘ یہ مجھے نالائق اور بدتمیز ماتحت سمجھتے تھے اور میں انھیں متکبر اور جلد باز باس۔ اس ٹکراؤ کا یہ نتیجہ نکلا میرے باس نے ٹھڈا مار کر میری لگی بندھی نوکری ختم کر دی‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ ایک دروازہ بند ہوا اور سیکڑوں دروازے کھل گئے اور میرا سفر بھی پوری رفتار سے شروع ہو گیا‘ وقت نے ہماری غلط فہمیاں دور کر دیں اور ہم ایک دوسرے کا احترام کرنے لگے‘ حامد میر بھی عام انسانوں کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہیں لیکن ان کی خوبیاں ان کی خامیوں سے زیادہ ہیں۔

یہ چوبیس گھنٹے کے صحافی ہیں‘ یہ دن رات خبر‘ اطلاعات اور معلومات کی تلاش میں رہتے ہیں‘ ہم جس اطلاع کو انتہائی خفیہ سمجھتے ہیں‘ حامد میر کو اس کی نہ صرف مکمل معلومات ہوتی ہیں بلکہ یہ اس خبر کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘ یہ تعلقات بنانے اور چلانے کے بھی ماہر ہیں‘ یہ بارہ سال سے کرنٹ افیئرز کا مقبول پروگرام کر رہے ہیں‘ لوگ ان کے پروگرام سے بعض اوقات خفا ہو کر جاتے ہیں لیکن یہ خفا لوگ چند دن بعد دوبارہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں‘ یہ بے لوث بھی ہیں‘ یہ یار باش بھی ہیں‘ یہ اپنے کام کے ساتھ مخلص بھی ہیں‘ یہ بے خوف اور نڈر بھی ہیں اور میرے ذاتی خیال میں ان کے بارے میں پھیلائی گئی زیادہ تر منفی خبریں بھی غلط ہیں‘ یہ اگر کرپٹ ہیں یا یہ کسی دوسرے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں تو پھر ہم پیشہ اور ہم شہر ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے تھا مگر آج تک حامد میر کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا‘ حامد میر کل وقتی صحافی ہیں‘ یہ رپورٹر تھے‘ آج بھی ان کے اندر رپورٹر زندہ ہے‘ یہ کالم نویس بھی ہیں اور یہ ملک کے نامور سیاسی اینکر بھی ہیں‘ یہ پاکستان میں ’’ہاٹ پولیٹیکل شو‘‘ کے بانی ہیں‘ آج ملک کے تمام نیوز چینلز پر تین سیاستدانوں کے ساتھ ٹاک شو نشر ہوتے ہیں‘ یہ ’’فارمیٹ‘‘ حامد میر نے شروع کیا تھا اور یہ فارمیٹ آج تمام ٹیلی ویژن چینلز کا حصہ ہے لہٰذا آپ پاکستان کی صحافت کو جس بھی زاویے سے دیکھیں‘ آپ حامد میر کو ’’اگنور‘‘ نہیں کر سکیں گے‘ آپ حامد میر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یہ حامد میر ہفتہ 19 اپریل کی شام سوا پانچ بجے کراچی ائیر پورٹ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر گولی کا نشانہ بنے‘ یہ ناتھا خان پل کے قریب پہنچے تو ایک حملہ آور نے ان کی گاڑی پرفائر کھول دیا‘ حامد میر زخمی ہو گئے‘ ڈرائیور نے گاڑی بھگائی تو حملہ آور نے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ان کا پیچھا کیا اور چلتی گاڑی پر بھی فائرنگ کی‘ حامد میر کو چھ گولیاں لگیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی بچا لی لیکن حامد میر پر حملے نے ملک میں ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا‘ عامر میر ان کے بھائی ہیں‘ یہ بھی صحافت سے وابستہ ہیں‘ عامر میر نے الزام لگایا‘ یہ حملہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیر الاسلام نے کروایا‘ عامر میر کے بقول ’’حامد میر نے ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کرایا تھا‘ جس میں انھوں نے اعلان کیا تھا ‘ مجھے آئی ایس آئی سے خطرہ ہے اور اگر مجھے قتل کیا گیا تو اس کی ذمے داری آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام پر ہو گی‘‘ عامر میر کے اس الزام کے بعد جیوٹیلی ویژن نے جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر اسکرین پر لگائی اور انھیں ’’مجرم‘‘ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا‘ ہم حامد میر اور عامر میر کے الزام کو نہیں جھٹلاتے‘ ملکی قانون کے مطابق متاثرہ فریق کسی بھی شخص یا ادارے پر شک کا اظہار کر سکتا ہے‘ یہ اس ادارے یا شخصیت کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوا سکتا ہے لیکن یہ شخص یا ادارہ مجرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تفتیشی ادارے اور عدلیہ کرتی ہے‘ قانون‘ عدل اور آئین یہ کہتا ہے‘ مجرم جب تک مجرم ثابت نہیں ہوتا وہ اس وقت تک بے گناہ تصور ہوتا ہے اور کسی شخص یا کسی ادارے کو اس شخص کو مجرم قرار دینے کا حق حاصل نہیں۔ میں دس سال جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ رہا‘ مجھے ان دس برسوں میں جنگ گروپ کے سینئرز نے سکھایا ’’صحافی کا کام رپورٹ کرنا ہوتا ہے‘ کسی کو مجرم ڈکلیئر کرنا نہیں‘ صحافی ہمیشہ ’’نومینز لینڈ‘‘ پر کام کرتا ہے‘ یہ فریق نہیں بنتا‘‘۔

ہمیں یہ بھی سکھایا گیا تھا’’ صحافی کو کبھی اپنی حدود سے باہر نہیں نکلنا چاہیے‘‘ میں نے جنگ گروپ کے ساتھ وابستگی کے دور میں ہزاروں کالم لکھے‘ میں ان کالموں میں جب بھی حدود کراس کرنے کی کوشش کرتا تھا یا میں فریق بنتا تھایا میں صرف افواہ یا شک کی بنیاد پر رائے دینے کی کوشش کرتا تھا‘ میرا کالم ایڈٹ کر دیا جاتا تھا‘ میں نے اس سلوک پر بار بار احتجاج کیا مگر انتظامیہ نے کبھی میرے احتجاج کو درخور اعتناء نہیں سمجھا‘ ان کا کہنا تھا ’’رول از رول‘‘ ہم اپنے عزیز ترین کالم نگار کے لیے بھی صحافتی اصول نہیں توڑ سکتے لیکن حامد میر پر حملے کے بعد اسی ادارے نے اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی دھجیاں اڑا دیں‘ میں بھی فوج اور آئی ایس آئی کا ناقد ہوں‘ ملک کا شاید ہی کوئی باشعور صحافی فوج کے سیاسی کردار اور مسنگ پرسنز کے ایشو پر آئی ایس آئی کی حمایت کرے گا لیکن ہم اس تنقید کے دوران صحافتی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس ’’ہم‘‘ میں حامد میر بھی شامل ہیں‘ یہ بھی تمام تر جرأت اور بہادری کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ یہ کبھی تنقید کے سر سے تعریف کا دوپٹہ نہیں اترنے دیتے ہیں مگر حامد میر کا ادارہ دو دن تک مسلسل ملک کے معتبر ادارے کے منہ پر کیچڑ ملتا رہا‘ یہ صحافتی اصولوں کی بھی خلاف ورزی تھی اور قانون‘ آئین اور اخلاقیات سے بھی انحراف تھا۔

ہم صحافتی برادری کو تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا‘ اس کمیشن سے جلد اور جامع تفتیش کی ڈیمانڈ کرنی چاہیے تھی‘ ہمیں ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے تھا اور مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں بھی کھڑا کرنا چاہیے تھا لیکن حامد میر کے ادارے نے حامد میر کی ایف آئی آر سے قبل اپنی اسکرین پر ایف آئی آر درج کر دی‘ اس نے اپنے نیوز روم کو تفتیشی سینٹر بنا دیا‘ اپنے اینکر پرسنز کوچیف جسٹس کا درجہ دے دیا اور آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام کو مجرم ڈکلیئر کر کے انھیں سزا بھی سنا دی‘ یہ کہاں کی صحافت ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہ وہ رویہ ہے لوگ جس کی وجہ سے صحافی کو بلیک میلر اور صحافت کو زرد صحافت کہتے ہیں‘یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

حامد میر پر حملہ پوری صحافت پر حملہ ہے‘ یہ چھ گولیاں صرف حامد میر کو نہیں لگیں‘ یہ ملک کے 80 ہزار صحافیوں کے دل پر لگی ہیں اور ہم اس وقت اتنی ہی تکلیف محسوس کر رہے ہیں جتنی حامد میر کو ہو رہی ہے لیکن جو توپ حامد میر کے ادارے نے حامد میر کو سامنے رکھ کر داغی اس کی تکلیف کا ازالہ کون کرے گا؟ اس کا جواب کون دے گا؟ ہم صحافی آج اس توپ کی وجہ سے شرمندہ ہیں‘ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ ذمے دار صحافت ہے؟‘‘ اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا‘ حامد میر ہمارا بھائی بھی ہے‘ دوست بھی اور کولیگ بھی۔ اس کے لیے جان بھی حاضر ہے لیکن ہم اس کے ادارے کے رویئے کو کہاں رکھیں‘ ملک میں روز صحافیوں اور صحافتی اداروں پر حملے ہوتے ہیں‘ ایکسپریس گروپ پر چھ حملے ہوئے اور ان حملوں کے دوران چار لوگ شہید ہو ئے‘ رضا رومی پر حامد میر سے بڑا حملہ ہوا تھا‘ اس حملے میں ان کا صحافتی کیریئر تباہ ہو گیا‘ اے آر وائی‘ سماء اور وقت ٹی وی پر بھی حملے ہوئے لیکن جنگ گروپ نے ان حملوں کی خبر تک شایع نہیں کی‘ یہ ہمیشہ اس قسم کے حملوں پر نجی ٹی وی کے دفتر پر حملہ یا نجی ٹی وی کے اینکر پرسن پر حملہ قسم کی سنگل کالم خبر شایع کرتا تھا۔

ہم سب لوگ جنگ اور جیو گروپ کے صحافیوں‘ رپورٹرز اور اینکرپرسنز کو اپنے پروگراموں میں بلاتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو کسی ادارے کی پراپرٹی نہیں سمجھتے‘ ہم انھیں اپنا بھائی‘ دوست اور کولیگ سمجھتے ہیں اور اس حیثیت سے انھیں پروگراموں میں بھی بلاتے ہیں اور عوام تک ان کے تاثرات بھی پہنچاتے ہیں لیکن حامد میر کا ادارہ کسی دوسرے ادارے کے کسی صحافی کا نام تک لینا اپنی توہین سمجھتا ہے‘ ہم آج بھی حامد میر کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن کیا حامد میر کا ادارہ رضا رومی کے ساتھ کھڑا تھا؟ کیا ان لوگوں نے اس کے بارے میں کلمہ خیر کہا؟ میری حامد میر کے ادارے سے درخواست ہے‘ آپ اس واقعے ہی سے کچھ سیکھ لیں‘ آپ تفتیشی ٹیم یا عدالت نہ بنیں‘ آپ صحافتی ادارہ بنیں‘ یہ فیصلے سنانا ایک خطرناک ٹرینڈ ہے ‘ اس سے صحافت کو بھی نقصان ہو گا اور ملک کو بھی۔ دوسرا‘ آپ مہربانی فرما کر صحافیوں کو صرف صحافی رہنے دیں‘ انھیں میرا صحافی یا تیرا صحافی نہ بنائیں‘ ہم سب ایک دوسرے کے کولیگ‘ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ میں حامد میر کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوں اور حامد میر کا کندھا میرے کندھے کے ساتھ رہے گا‘ آپ کندھے کو کندھے کے ساتھ رہنے دیں انھیں کاٹنے کی کوشش نہ کریں‘ آپ صحافت کو نجی ٹی وی یا نجی اخبار میں تبدیل نہ کریں‘ ہمیں حامد میر اور حامد میر کو ہمارا نام لینے دیں تا کہ ملک میں صحافت اور صحافی دونوں زندہ رہیں ورنہ دوسری صورت میں میرا صحافی بچے گا اور نہ ہی تیرا صحافی اور اگر صحافی نہ بچے تو آپ ادارے کیسے چلائیں گے؟ اور آخری مشورہ آپ الزامات کو مہم بنانے سے قبل یہ ضرور سوچ لیا کریں ہمارے الزامات سے اگر کسی ناپسندیدہ شخص یا ادارے نے فائدہ اٹھالیا اور ملک تباہ ہو گیا تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ تاریخ ہمیں کس نام سے یاد کرے گی‘ صحافت اور صحافی ملکوں کے لیے ہوتے ہیں‘ اگر ملک ہی نہ رہا تو صحافی اور صحافت کہاں رہے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔