ایڈونچر

ایم جے گوہر  پير 21 اپريل 2014

دانشوروں کا قول ہے کہ بولنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچ لینا چاہیے یعنی ’’پہلے تول پھر منہ کھول‘‘ اگر بات سوچ سمجھ کر مثبت انداز سے کی جائے تو کسی کی دل آزاری کا باعث نہیں بنتی لیکن جب کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے وقت جذبات غالب آجائیں تو مبنی برحقیقت موقف سامنے نہیں آسکتا اور کہی ہوئی بات دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔ صورتحال اس وقت مزید گمبھیر اور پیچیدہ ہونے لگتی ہے کہ جب بات کہہ کر اس کے دفاع میں بے سروپا تاویلیں پیش کی جانے لگیں کہ ہم نے یہ نہیں کہا اور ہم نے وہ نہیں کہا یا یہ کہ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا اور فریق دوئم نے میری بات کا غلط مفہوم سمجھا یا اسے میڈیا میں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا حالانکہ اصل بات اور اس کا صحیح مفہوم وہی ہوتا ہے جو اول مرحلے میں سامنے آتا ہے اور اہل الرائے و دانشور طبقہ اس پر مہر تصدیق مثبت کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے ’’صاحب کردار‘‘ لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں جو اپنی بات کہہ کر مکرنے کی بجائے اس پر خم ٹھونک کر جمے رہتے ہیں۔ ایسے ہی باصفا لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ہمارے عہد کے نامور شاعر ظفر اقبال نے کیا خوبصورت معنی خیز اور لافانی شعر کہا ہے:

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہ اس پر ظفر

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے

بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی زندگی میں ایسے ’’صاحب کردار‘‘ سائنسدانوں کے حوالے سے ’’قحط الرجال‘‘ کی سی صورتحال ہے یہاں بات کہہ کر ’’گھمانا‘‘ ہی سیاست سمجھا جاتا ہے، آپ تازہ صورتحال پر ہی نظر ڈال لیجیے برسر اقتدار طبقے دو اہم وزرا کے جذباتی بیانات کے باعث ماحول میں ہلچل اور تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ، اب تاویلیں اور صفائیاں پیش کرکے اطمینان دلانے اور اپنی پوزیشن کو ’’کلیئر‘‘ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ نظر آنیوالے ’’امکانی خطرے‘‘ کو ٹالا جاسکے اور ملک و قوم اور جمہوریت میرے عزیز ہم وطنو! کے ’’ٹارگٹ‘‘ اور اثرات سے محفوظ رہے، ایک دنیا جانتی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 99ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا، وزیر اعظم کو برطرف کیا اور پارلیمنٹ و آئین معطل کردیا تھا لیکن (ن) لیگ کی موجودہ حکومت نے ان کے 12 اکتوبر کے ’’بڑے جرم‘‘ کو تو نظرانداز کردیا اور  پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے غیر آئینی اقدام پر گرفت کرتے ہوئے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا حالانکہ 3 نومبر کے اقدام کے باعث نہ منتخب حکومت ختم ہوئی نہ وزیر اعظم برطرف ہوئے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو معطل کیا گیا صرف پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

ملک کے صاحب دانش طبقے بجا طور پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ 12 اکتوبر کے اقدام پر چپ سادھ لینا اور 3 نومبر کے فیصلے پر مقدمہ دائر کرنا بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو پرویز مشرف کے 12 اکتوبر کے غیرآئینی اقدام کے خلاف مقدمہ درج کرائے ان کے اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرنیوالے اور ان کا ساتھ دینے والے تمام متعلقہ افراد کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے تب ہی انصاف کے تقاضے پورے ہونگے ورنہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی مثال صادق آئیگی جو حکومت کی بدنامی و رسوائی کا باعث ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیا 3 نومبر کا اقدام  پرویز مشرف کا تنہا اور ذاتی فیصلہ تھا اس حوالے سے مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں جن پر ماہرین آئین و قانون کی آرا سامنے آنی چاہیے۔پرویز مشرف کے بطور ملزم عدالت میں پیش ہونے اور ان پر فرد جرم عاید ہونے کے بعد مناسب تو یہ تھا کہ حکومت اور اس کے وزرا انصاف کے تقاضوں کے مطابق عدالتی فورم پر مقدمے کو آئین و قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے لیکن پرویز مشرف پر فرد جرم عاید ہونے کے بعد ارباب اقتدار یہ سمجھ بیٹھے کہ انھوں نے ہمالیہ سر کر لیا ہے اور اب پرویز مشرف کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔

لہٰذا خوش فہمی کا شکار وزرا کرام نے بغیر سوچے سمجھے جذباتی بیانات کی گولہ باری شروع کردی اپنے دلوں کی بھڑاس نکالتے ہوئے وزرا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اورپرویز مشرف کو ’’مرد کے بچے‘‘ بننے جیسی نصیحتیں دینا شروع کر دیں ظاہر ہے کہ یہ ’’انداز بیاں‘‘ ناپسندیدہ ہے جس پر پاک فوج کا ردعمل عین فطری ہے جس سے ماحول میں تلخی اور تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار جنرل راحیل شریف کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کو حکومت کے لیے ’’پیغام‘‘ اور ’’تنبیہہ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔

اب خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق ودیگر وزرا لاکھ تاویلیں، دلیلیں اور صفائیاں پیش کرتے رہیں لیکن ’’طوفان‘‘ کے تھمنے میں وقت لگتا ہے اس حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کردار اہمیت کا حامل ہے کہ وہ معاملات کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں اور پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے پائی جانیوالی بے چینی و تحفظات کو دور کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں اور کس طرح کی یقین دہانیاں کراتے ہیں کیونکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی اور فرد جرم عاید ہونے کے پیچھے بھی یہ حکومتی یقین دہانی تھی کہ  پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا اور انھیں اپنے علاج اور والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی جائے گی۔ اگرچہ پرویز مشرف نے عدالت میں پیش ہوکر اپنا ’’وعدہ‘‘ پورا کردیا لیکن حکومت نے ان کا نام ازخود ای سی ایل سے نکالنے کی بجائے معاملہ عدالت کے سپرد کر دیا۔ اس پر مستزاد بعض دوسرے کیسوں میں دیگر عدالتوں میں بھی انھیں طلب کیا جا رہا ہے جس کے باعث صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق نہ صرف پرویز مشرف بلکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات، مشتبہ قیدیوں کی رہائی، بھارت جیسے ازلی دشمن کے ساتھ پسندیدہ ملک کی باتیں اور افغانستان کے معاملات وغیرہ کے حوالے سے بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر میرے عزیز ہم وطنو! کی بازگشت سنائی دینے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال جمہوریت پسند اور محب وطن حلقوں کے لیے پریشانی اور فکرمندی کا باعث ہے ملک کو اندرون و بیرون وطن متعدد چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی طور پر تمام آئینی و ریاستی ادارے باہم مربوط مضبوط و مستحکم رہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت و بالادستی کی خواہش سے آپس میں ٹکراؤ اور عدم استحکام پیدا ہوگا لازم ہے کہ تمام ادارے اور اس کے سربراہان آئین و قانون کے دائرے میں اپنے فرائض منصبی ادا کریں کسی ’’ایڈوانچر‘‘ کی کوشش سب کے لیے نقصان دہ ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔