لگتا ہے جگہ جگہ گوانتا نا موبے کھلے ہیں، جہاں قانون ہے نہ قاعدہ، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 25 اپريل 2014
کسی پر الزام ہے توٹرائل کیاجائے،جومجرم ہیں انھیں سزادیں لیکن بغیر الزام زیرحراست رکھناغیرقانونی ہے،جسٹس سرمد فوٹو: فائل

کسی پر الزام ہے توٹرائل کیاجائے،جومجرم ہیں انھیں سزادیں لیکن بغیر الزام زیرحراست رکھناغیرقانونی ہے،جسٹس سرمد فوٹو: فائل

اسلام آ باد: سپریم کورٹ نے حراستی مراکز میں ملاقات کے لیے آنے والے افرادکے ساتھ انتظامیہ کی بدسلوکی پرسخت برہمی کا اظہارکیاہے اورحراستی مراکز میں ملاقاتیوں کو تمام مناسب سہولتیں دینے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے لگتاہے ملک میں جگہ جگہ گوانتاموبے کھلے ہیں جہاں نہ کوئی قانون اور نہ ہی کوئی قاعدہ چلتاہے۔جمعرات کو کوہاٹ حراستی مرکز میں قیدگل فقیر شاہ کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے بھائی ملنگ خان نے جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ وہ عدالت کے حکم پر حراستی مرکز میں ملاقات کے لیے گیا تھا لیکن سیکیورٹی پر موجود افراد نے بدسلوکی کی، اس کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار ملاقاتیوں کی بے عزتی کرتے ہیں، عدالت نے اس طرز عمل پر شدید تشویش اور برہمی کا اظہارکیا۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے  عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ کوکہا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

اگرکسی پر الزام ہے تو اس کا ٹرائل کیا جائے،جو مجرم ہیں انھیں سزا دیں لیکن بغیر الزام کے لوگوں کو اس طرح زیر حراست رکھنا غیر قانونی ہے،اگرکوئی قانون ہے تواس پرعمل ہونا چاہیے ۔جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جوعام قیدیوں کوحاصل ہوتے ہیں، حکومت نے اس فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ فیصلہ قبول کیا ہے،اگر فیصلہ قبول ہے تو اس پر عمل بھی کیا جائے ،لوگوں کواس طرح زیر حراست رکھنا غیر قانونی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے پر عمل ہو رہا ہے اور تمام حراستی مرکز میں مناسب سہولتیں فراہم کردی گئیں۔عدالت نے گل فقیر شاہ کے ساتھ اہلخانہ کی ملاقات کا حکم دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔