چالیس لاکھ ڈالر کمانے والا استاد

نسیم کوثر  اتوار 20 جولائی 2014
کِم کی ہون جنوبی کوریا میں سالانہ چار ملین ڈالر کماتے ہیں، وہ راک سٹار ٹیچر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کِم کی ہون جنوبی کوریا میں سالانہ چار ملین ڈالر کماتے ہیں، وہ راک سٹار ٹیچر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اگر کوئی ایک ہی رات میں مال دار بننے کا خواب دیکھے تو اس کے ذہن میں فوری طور پہ دو پیشوں کا خیال آئے گا جن کے ذریعے وہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرسکتا ہے، اول:شوبز ، دوم:ذاتی کاروبار۔ تدریس کا اس فہرست میں شامل ہونا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو ملانے جا رہی ہوں ایک ایسے استاد سے جس کی دولت کا منبع ہی تدریس ہے۔

کِم کی ہون جنوبی کوریا میں سالانہ چار ملین ڈالر کماتے ہیں، وہ راک سٹار ٹیچر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں…راک سٹار ٹیچر… دو الفاظ کا ایسا اِمتزاج جو مثالی طور پر دنیا میں کہیں اور سنائی نہیں دیتا۔مسٹر کِم کی ہون کو پڑھاتے ہوئے بیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔اْن کے یہ بیس سال ملک کے نجی شعبوں میں صَرف ہوئے ہیں۔ یہ نجی شعبے پبلک سکول ٹیوٹرنگ کے بعد شروع ہوتے ہیں اور انھیں ’ہیگوؤنز‘ کہتے ہیں۔ یہ ہیگوئونز ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں اکیڈیمیز جہاں طلبہ وطالبات کی تعلیمی صلاحیت وقابلیت کو بہتر سے بہترین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دنیا کے نقشے پر موجود دوسرے اساتذہ کے برعکس مسٹر کِم کو ان کی صلاحیتوں اور مطالبات کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ کِم کے مطالبات ہمیشہ زیادہ ہی ہوتے ہیں۔

مسٹر کِم انگلش پڑھاتے ہوئے ہفتے میں ساٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس عرصہ کے دوران وہ صرف تین گھنٹے لیکچر دینے میں صَرف کرتے ہیں۔ان کی منعقدہ کلاسز کو ویڈیوز کی صورت میں ریکارڈ کرلیا جاتا ہے جنھیں بعد ازاں انٹرنیٹ کے ذریعے کارآمد مواد میں ڈھال کر چار ڈالر فی گھنٹہ کے عوض آن لائن دستیابی کے لیے مہیّا کر دیا جاتا ہے۔ تدریس کے لیے وقف ہفتے کا زیادہ تر وقت وہ طلباء کی طرف سے مدد کے لیے بھیجی گئی گزارشات کا آئن لائن جواب دینے میں،اسباق کی پیشگی منصوبہ بندی کرنے میں اور مددگار نصابی کْتب کی تصنیف میں گزارتے ہیں۔ان کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد 200 تک پہنچ چکی ہے۔کِم کی ہون کہتے ہیں:’’میں جتنی زیادہ محنت کرتا ہوں، اتنا ہی زیادہ کماتا ہوں۔ یہی مجھے پسند ہے۔‘‘

میں جنوبی کوریا میں گھومی پھری ، محض یہ دیکھنے کے لئے کہ یہاں بچوں کی تعلیمی کاکردگی میں بہتری کے لئے فری مارکیٹ کیاکچھ کررہی ہے ۔اور میرا اصل مقصد یہ جاننا ہے کہ ہم دنیا کی تعلیمی سپرپاورز سے کیاکچھ سیکھ سکتے ہیں۔گزشتہ چند عشروں میں جنوبی کوریا نے تعلیمی شعبے میں ڈرامائی انداز میں ترقی کی ہے۔

ساٹھ سال قبل جنوبی کوریا کے باسی ان پڑھ تھے لیکن اب صورتِحال یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے 15 سالہ باشندے دنیا میں مطالعہ کے حوالے سے شنگھائی (چین)، ہانگ کانگ( چین)، سنگاپور اور جاپان کے بعد پانچویں نمبر پر آتے ہیں، اس کے بعد نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا نمبر آتاہے۔جبکہ ملک میں ہائی سکول گریجویشن کا تناسب اب ترانوے(93) فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں یہ تنا سب ستتر(77) فیصد ہے۔ ٹیوٹرنگ(نجی طور پر تدریسی خدمات) اب آئرلینڈ سے لے کر ہانگ کانگ تک پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ ان نجی تدریسی خدمات کوشیڈو ایجوکیشن سسٹم بھی کہا جاتا ہے، یہ مین سٹریم سسٹم کا آئنہ ہوتی ہیں۔

قریب سے مشاہدہ کرنے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ شیڈو سسٹم دلچسپ بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ یہ طلبا اور اساتذہ ، دونوں میں جدوجہد اور نئی ذہنی اختراع کو فروغ دیتا ہے۔ اسی نے جنوبی کوریا کو تعلیمی میدان میں سپرپاور بنانے میں مدد دی لیکن دوسری طرف اسی نے تعلیم کے میدان میں زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی جنگ میں چھیڑ دی۔دولت مند گھرانوں کے لیے بہترین تعلیمی مواقع میسّر ہیں۔تاہم یہ نظام طلبہ وطالبات کے ذہنوں پر کچھ اچھے اثرات مرتب نہیں کرتا۔اس نظام کے تحت طلباء کے لیے دن میں دو دفعہ سکول جانا لازم ہو جاتا ہے۔ایک دفعہ دن میں اور ایک دفعہ رات کو ٹیوٹرنگ اکیڈمیز میں۔ یہ طلباء کو بے رحم طریقے سے پیسنے کے مترادف ہے۔

مسٹر کِم کی دولت کا ذخیرہ ان ایک لاکھ پچاس ہزار طلباء کی بدولت ہے جو ہر سال آن لائن ان کے لیکچر دیکھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان طلباء کی ہے جو جنوبی کوریا کے ساٹ(SAT) کے امتحان میں زیادہ نمبر لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مسٹر کِم تمام تر مارکیٹ ویلیو کے ساتھ برانڈ نام بن چکے ہیں۔ ان کے پاس تیس ملازم ہیں جو ان کی تدریسی سلطنت کو سنبھالنے میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے طلبہ وطالبات کو اپنی کتب فراہم کرنے کے لیے وہ ایک پبلشنگ کمپنی بھی چلارہے ہیں۔

اس کامیابی کو محض ٹیوشن کی مرہونِ منت سمجھنا اس کی وسعت اور نفاست کو کم تر تصور کرنے کے مترادف ہوگا۔میگا سٹڈی جو ’آن لائن ہیگوؤن‘ ہے اور جس کے لیے مسٹڑکِم کی ہون کام کرتے ہیں جنوبی کوریا کے سٹاک ایکسچینج کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ قریباًہر چار میں سے تین جنوبی کوریائی بچے نجی مارکیٹ میں حصہ ڈالتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء میں ان بچوں کے والدین نے سترہ بلین ڈالرز سے زائد اس قسم کی خدمات کے عوض خرچ کیے۔ یادرہے کہ اسی سال امریکی بچوں نے پندرہ بلین ڈالرز سے زیادہ رقم ویڈیو گیمز پر خرچ کر ڈالی۔ جنوبی کوریا کی یہ تعلیمی مارکیٹ اتنی منافع بخش اور پرکشش ہے کہ دنیا کی بڑی فرمیں بھی یہاں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔

مسٹر کِم کی ہون جیسے استاد کے بارے میں جاننا یقیناً بہت سنسنی خیز کام ہے، وہ مسٹر کِم کی ہون جو امریکہ کے ایک پیشہ ور ایتھلیٹ کے برابر پیسے کماتا ہے۔جنوبی کوریا کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی شہری اپنے بھرپور ولولے اور صلاحیت کے ساتھ بینکر یا وکیل بننے کی خواہش رکھتا ہے لیکن اگر وہ جنوبی کوریا میں ہوتا تو معلّم بنتا۔اورپھر ہر صورت میں امیر ہوتا۔

اگرچہ تدریس کے ذریعے دولت مند ہونے کا یہ تصور دل فریب ہے مگر یہ ایک مشکل کام ہے تو کیوں نہ اسے سود مند بنایا جائے۔ سرکاری سکول اساتذہ کو کبھی لکھ پتی نہیں بنا سکتے۔ مگرکچھ ایسے سبق ہیں جو جنوبی کوریا کے اس پھیلتے پھولتے تعلیمی بازار سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔مثلاً یہ سبق کہ اساتذہ کو کیسے متحرّک کیا جائے؟والدین اور طلباء کو کیسے مائل کیا جائے؟اور بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ خود کو کیسے موافق بنایاجائے؟

مسٹر کِم کن جیسے راک سٹار اساتذہ تلاش کرنے کے لیے ہیگوؤن کے ڈائریکٹرز انٹرنیٹ کو کھنگالتے ہوئے والدین کے تبصرے پڑھتے ہیں اور اساتذہ کے لیکچرز دیکھتے ہیں۔ لی چئے یان جو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں پانچ ہیگوؤن کی ایک چین کی مالکہ ہیں ،کہتی ہیں:’’ اچھے معلّم تلاش کرنا اور انھیں سنبھالنا مشکل کام ہے۔ آپ کو ان کی انا کی حفاظت کرنا پڑتی ہے‘‘۔ کیونکہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے ہیگوؤنز ایک دوسرے کے نامور اساتذہ کی ٹانگ کھینچنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

ہیگوؤنز اور روایتی قسم کے سکولوں میں سب سے بنیادی فرق یہ ہے کہ طلباء اپنے لئے استاد کا انتخاب خود کرتے ہیں۔ اس طرح سب سے نامور اساتذہ کے پاس سب سے زیادہ طلباء ہوتے ہیں۔مسٹر کِم کن کے پاس فی آن لائن لیکچر میں ایک سو بیس طلباء ہیں۔مگر ایک عام استاد کی ہیگوؤن جماعت اس سے کہیں چھوٹی ہوتی ہے۔ بہرحال نجی تدریسی خدمات نے کوریا کے شعبہ تعلیم کو ایک استاد تک ہی محدود کردیاہے۔

اگرچہ یہ ایسا نظام ہے جس میں لوگوں کی اہلیت وصلاحیت کی مطابق اختیارات اور مقام دیا جاتا ہے لیکن دوسرے حوالے سے ظالمانہ بھی ہے۔ ہیگوؤنز میں اساتذہ کو کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان کا منافع میں حصہ ہوتا ہے نہ ہی کوئی باقاعدہ تنخواہ۔ انھیں معاوضہ ان کی کارکردگی کی بنیادپر ملتا ہے۔ لہذا کم تر کارکردگی کی وجہ سے ان میں سے بہت سوں کی آمدن ایک سرکاری سکول کے اساتذہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔

ہیگوؤنز کے اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ بنیادی طور پر اس امر سے لگایا جاتا ہے کہ کس اُستاد کی طرف کتنے طلباء رجوع کرتے ہیں؟ان سے پڑھنے والے طلباء کی آزمائشی امتحانات میںکارکردگی کیسی ہے؟ اور سروے کے دوران طلباء اور ان کے والدین کیاکہتے ہیں؟کیا وہ ان کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں؟ ہیگوؤن کے طلباء سے سروے کے دوران پوچھاجاتاہے کہ آپ کا معلّم اپنے کام کے بارے میں کس حد تک پر جوش ہے؟ معلّم کی لیکچر کے لیے تیاری کتنی اچھی ہوتی ہے؟ معلّم کی 60 فیصد کارکردگی کا فیصلہ پوچھے گئے ان سوال کے جوابات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

مس لی چئے یان کہتی ہیں:’’طلباء ہمارے گاہک ہیں۔ نئے طلباء کی بھرتی کے لیے ہیگوؤنز دھڑا دھڑ اپنے طلباء کے نتائج کے اشتہارات دیتے ہیں۔وہ آن لائن، داخلی دروازوں پر اور بڑے بڑے پوسٹرز کے ذریعے اپنے گریجویٹ طلباء کے ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبرز اور یونیورسٹیوں کی طرف سے ان کے داخلے کے لیے منظوریکے اعدادوشمار کی تشہیر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ جب طلباء داخلہ لے لیتے ہیں تو ہیگوؤن ان کے گھرانوں میں مضبوط تعلقات قائم کر لیتا ہے۔

ہر سہ پہرجب بچے اکیڈمی پہنچتے ہیں تو ان کے والدین کو باقاعدہ ٹیکسٹ میسجز بھیجے جاتے ہیں۔پھر انھیں ان کے بچوں کی تعلیمی پیش رفت کے متعلق الگ سے میسجز بھیجے جاتے ہیں۔مہینے میں دو سے تین دفعہ اساتذہ گھروں میں فون کر کے فیڈبیک دیتے ہیں۔ چند مہینوں کے وقفوں سے ہیگوؤنز کے سربراہ بھی فون کرتے رہتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں اگر والدین بچے کے تعلیمی مراحل میں شامل نہیں ہوتے تو اسے اساتذہ کی ناکامی تصور کیا جاتا ہے نہ کہ والدین کی۔

اگر معلّم سروے کے دوران کم نمبر حاصل کرے یا اس کی خدمات حاصل کرنے میں بہت کم تعداد میں طلباء دلچسپی ظاہر کریں تو وہ بتدریج صرف آزمائشی مدت کی تدریس کے لیے محدود ہو کے رہ جاتا ہے۔ مس لی ہر سال تقریباً دس فیصد اساتذہ کو فارغ کرتی ہیں۔یادرہے کہ امریکہ میں ناقص کارکردگی کی بنا پر نکالے جانے والے اساتذہ کا سالانہ تناسب صرف دو فیصد ہے۔

اس قسم کا دباؤ اساتذہ کے لیے محرّک کا کام دیتا ہے۔کورین ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے2010 میں116 سکولوں کے6600 طلباء پر کیے جانے والے سروے کے مطابق کورین ٹین ایجرز بورڈ کے امتحانات میں سرکاری سکول کے اساتذہ کی نسبت اپنے ہیگوؤن اساتذہ کو اچھے نتائج دیتے ہیں۔ ٹین ایجرز کہتے ہیں کہ ہیگوؤن کے اساتذہ زیادہ مستعد ہوتے ہیں ،اپنے کام کو سرانجام دینے کی لگن رکھتے ہیں اور اپنے طلباء کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

نجی اساتذہ کو اس لیے بھی فوقیت حاصل ہی کیونکہ انھیں نت نئی ٹیکنالوجی اور غیر روایتی طریقہ تدریس آزمانے کا موقع ملتا ہے۔ پالیسیاں بنانے والوں اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیے کہ والدین مرکزی سطح پر تعلیم کے حصول کے باوجود ایک بڑی رقم اضافی تدریس کے حصول کے لیے کیوںخرچ کرتے ہیں؟

اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی طلباء ہیگوؤنز میں زیادہ سیکھتے ہیں؟خلافِ توقع اس کا جواب مشکل ہے۔ علمی پیمانے پر اس بارے میں تحقیق ملے جلے نتائج ظاہر کرتے ہوئے تجویز کرتی ہے کہ آفٹر سکولنگ کلاسز میں معیار سب سے اہم ہونا چا ہئیے۔ معیار کا تعلق کم و بیش پیسے سے ہوتا ہے جو اصل مسئلے کی جڑ ہے۔متمول گھرانوں کے بچے علاقے کے سب سے مہنگے اور نامور معلّم سے انفرادی طورپر تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے بچے کم تر ہیگوؤنز میں پر ہجوم کلاسوں میں غیرمعتبر تدریس لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

یا انھیں سرکاری سکولوں کی طرف سے مہیا کی جانے والی سیکنڈ ٹائم کی کلاسوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔دس میں سے آٹھ جنوبی کوریائی طلباء کے والدین کہتے ہیں کہ ہیگوؤنز کی مہنگی ٹیوشن سے وہ معاشی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ پھر بھی ان میں سے زیادہ ترلوگ فیس ادا کرنے کے حق میں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی قیمت وہ ادا کریں گے ان کے بچوں کو اتنی ہی اچھی تعلیم ملے گی۔

عشروں سے جنوبی کوریائی حکومت نجی تعلیمی مارکیٹ کو اپنی ہاتھ میں لینے کے لیے کوششیں کررہی ہے۔ سیاستدانوں نے ہیگوؤنز پر کرفیو سمیت تمام ترممکنہ پابندیاں آزما لیں۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ تو بات یہاں تک پہنچ گئی کہ 1980ء کے عشرے کے دوران جب ملک پر فوج کا راج تھا ہیگوؤنز پرمکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن ہر دفعہ ہیگوؤنز مضبوط تر ہو کے سامنے آئے۔

مسٹر کِم کی ہون جیسے لکھ پتی معلم یہ کہتے ہیں:’’اس مسئلے کا واحد حل ہے کہ سرکاری سکولوں کی تدریس میں بہتری لائی جائے۔ اگر والدین سرکاری تعلیمی نظام پر بھروسہ کرتے تو وہ اضافی تدریس کے لیے اتنا پیسہ خرچ کرنے کی طرف کبھی راغب نہ ہوتے‘‘۔

ہیگوؤنز جیسا بھروسہ حاصل کرنے کے لیے مسٹرکِم کی ہون تجویز دیتے ہیں:’’ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو بھی ہیگوؤنز کی طرح ان کی صلاحتیوں کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ معاوضہ دیا جائے۔ تب ہی یہ پیشہ سب سے ماہر اورباکمال امیدواروں کو اپنی طرف مائل کر سکے گا۔ پھر والدین کو بھی یہ باورکرانا ممکن ہوگا کہ بہترین اساتذہ ان کے بچوں کے سکول میں ہی موجود ہیں نہ کہ نیچے مال روڈ والی گلی میں واقع ہیگوؤن میں۔

سرکاری سکول والدین اور بچوں کے ساتھ گرم جوش تعلقات قائم کرکے بھی ان کا بھروسہ جیت سکتے ہیں۔باقاعدہ سروے کرکے طلباء سے ان کے اساتذہ کے متعلق  مدّبرانہ طریقے سے اس طرح رائے لی جا سکتی ہے کہ اساتذہ اس سے دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ انھیں بہتر سے بہتر کی طرف جانے میں مدد ملے۔سکول کے پرنسپل حضرات تعلیمی نتائج کو شفاف سے شفاف تر بنا سکتے ہیں جیسا کہ ہیگوؤنز کرتے ہیں۔اور بدلے میں طلباء اور والدین سے مزید سخت ہوم ورک کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔اضافی اقدام کے طور پر اساتذہ کی تربیت کے پروگرامز کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ ان کا مقابلہ دنیا کے اعلیٰ کارکردگی کے حامل نظامِ تعلیم سے ہے۔ اس لیے معلم کے کمرہِ جماعت میں داخلے سے پیشتر اس پیشے میں بھروسے اور وقار کی موجودگی لازم ہے۔

کسی بھی ملک کے پاس تمام مسائل کاحل موجود نہیں ہوتا مگرکچھ سچ ایسے ہیں جو کائناتی سچائی بنتے جا رہے ہیں۔بچوں کو ضروت ہے کہ وہ ریاضی،مطالعہ اور سائنسی علوم میں تنقیدی انداز میں غور وفکر کرنا سیکھیں۔ان میں آگے بڑھنے کی لگن ہو اور وہ بدلتے ہوئے ماحول سے موافقت پیدا کر سکیں۔کیونکہ یہ وہ عوامل ہیں جو زندگی کے سارے سفر میں کارفرما رہیں گے۔چنانچہ ضروری ہے کہ سرکاری سطح پران کی تعلیمی تربیت میں تبدیلی لائی جائے یا پھر ہیگوؤنز کے ذریعے فری مارکیٹس کو یہ کارنامہ سر انجام دینے کی اجازت ملے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔