(پاکستان ایک نظر میں) - عمرہ اور قوم کا پیسہ

خزیمہ سلیمان  منگل 22 جولائی 2014
وزیر اعظم صاحب پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ اس عمرہ کے تمام تر اخراجات جناب وزیر اعظم اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں مگر پھر بھی شکی مزاج صحافی باز نہیں آتے اور شک کررہے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

وزیر اعظم صاحب پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ اس عمرہ کے تمام تر اخراجات جناب وزیر اعظم اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں مگر پھر بھی شکی مزاج صحافی باز نہیں آتے اور شک کررہے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

رمضان المکرم کا آخری عشرہ ہو، پُر نور سعاتیں اور جہنم سے آزادی کی بشارتیں مل رہی ہوں۔ طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کی سعی کی جا رہی ہو اور ایسے میں اگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت بھی نصیب ہو جائے تو اس سے بڑھ کر خوش بختی کیا ہو سکتی ہے۔ اور اگر آپ ہوں بھی ایک ملک کے حاکم تو انوار و تجلیات تو لپک لپک کر آپ کے دامن کو بھر نے لگتی ہیں۔۔

آجکل ہمارے اور آپ کے وزیر اعظم بھی بمعہ اہل و عیال عمرہ کی ادئیگی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ بُرا ہو اس میڈیا اور اس میں بولنے اور لکھنے والوں کا،اس با برکت اور نیک عمل کو بھی نہیں بخشتے،لگے ہیں الزام لگانے کے سرکاری خزانے سے عمرہ نہیں کرنا چاہیے،غریب عوام کے ٹیکسوں سے بھلا عمرے کا کیا فائدہ۔ بھئی ! وزیر اعظم صاحب اور ان کے سٹاف ممبران پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ اس عمرہ کے تمام تر اخراجات جناب وزیر اعظم اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں مگر شکی مزاج صحافی باز نہیں آتے،گڑھے مردے اُکھاڑتے ہیں کہ جب جناب صدر مملکت اس مقدس سفر پر گئے تھے تب بھی یہی کہا گیا تھا مگر خبریں کچھ اور بتاتی تھیں۔ اب ضروری تو نہیں اس بار بھی ایسا ہی ہو، نواز شریف صاحب ایک صاحب استطاعت انسان ہیں اور وہ اپنے ،اہل خانہ اور سٹاف کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ اُنہیں اپنے عوام سے بے حد ہمدردی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اس ذاتی عمل کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ ہاں مگر عمرے سے پہلے ،بعد میں یہ درمیان میں اگر ملک کے وسیع تر مفاد میں عالمی رہنماوں سے ملاقاتیں کرنی پڑ جائیں اور اُن میں اگر سرکاری وسائل استعمال ہو جائیں تو اس میں کوئی فکر کی بات نہیں اتنا حق بنتا ہی ہے،شائد اسی طرح کے حساب و کتاب کے لیے وہ وزیر خزانہ کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔

ہمارے اور آپ کے محبوب سابق وزیر اعظم جناب راجہ پرویز اشرف صاحب کے بابت یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مدینہ شریف حاضری کے لیے گئے تھے تو اُنہوں نے سرکاری خزانے سے کئے ملین ڈالڑ ہدیہ کے طور پر پیش کیے تھے، بھلا ہو اُنکا، عوام کے پیسوں سے ہدیہ دیا،اسی کی برکت تھی کہ عوام کو کرپٹ اور غاصب حکمرانوں سے نجات ملی۔ کچھ عامل بابے نواز سریف صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں وہ بھی روزہ رسول پر ہدیہ پیش کریں مگر اپنی جیب سے،تاکہ اُنہیں اپنے اُن مخالفین سے نجات مل جائے جو انقلاب،دھرنوں ،تبدیلی،دھاندلی اور مڈ ٹرم الیکشن کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ایسا کرنے سے اُنہیں اپنے مخالفین سے بھی نجات مل جائے گی اور ملک سے مشکلات اور مصیبتوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔اس عمل کیابس ایک احتیاط ہے کہ اس میں عوام کا پیسہ شامل نہ ہو ورنہ ایسی صورت میں اُن کی بجائے عوام کو نجات مل جائے گی اور ایسا ہونا نہیں چاہیے۔

اور ہاں،ایک بات بتانا تو ہم بھول ہی گئے،ہمارے محلے کے مولوی صاحب پچھلے جمعہ بیان کر رہے تھے کہ جس شخص پر قرضہ ہو اور وہ عمرہ یہ حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اُسے چاہیے کہ پہلے اپنے تمام قرضوں سے نجات حاصل کرلے۔ اور جب سے وزیر اعظم صاحب کی عمرے پر روانگی کی خبر آئی ہے،ہمارا ایک صحافی دوست شور مچا رہا ہے کہ کیا ۱۹۹۸ میں نو بینکوں سے لیے گئے چار بلین کے قرضے واپس کیے بغیر عمرہ ادا کیا جا سکتا ہے،لا حو لا ولہ۔۔۔کیسی کیسی گستاخیاں ہونے لگی ہیں۔جو کام مولویوں کے ذمہ تھا،اب صحافی کرنے لگے ہیں۔کیسا زمانہ آگیا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔