(دنیا بھر سے) - کیا بالغوں کا قانون بھارت میں ریپ کے واقعات روک پائے گا؟

محمد سعید گھمن  جمعـء 25 جولائی 2014
اگر جرم کرنے والا بلا تفریق جرم کرے تو اس کو سزا بھی سخت سے سخت دینی چا ہیے۔ فوٹو اے ایف پی

اگر جرم کرنے والا بلا تفریق جرم کرے تو اس کو سزا بھی سخت سے سخت دینی چا ہیے۔ فوٹو اے ایف پی

21 دسمبر 2012 دہلی میں ایک بس میں ہونے والے ریپ کے واقعے کے بعد بھارت جس طرح اس مسئلے پر اندرونی اور بیرونی دباؤ کے نیچے آیا ہے اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ کہاں کسی کو معلوم تھا کا دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا سب سے بڑامسئلہ ریپ کی صورت میں ابھرے گا اور اس میں اس کی حکومت بے بس نظر آئے گی۔ بھارت میں ہر روز ریپ کے درجنوں واقعات منظر عام پر آتے ہیں، جن میں کبھی کم عمر لڑکیوں کی لاشیں ریپ کے بعد درختوں پر لٹکی نظر آئیں گی ، تو کبھی پنچایت کے حکم پر گینگ ریپ ہو جائے گا ۔اور تو اور ڈنمارک کی سیاہ کو بھی دہلی میں نہیں بخشا جائے گا ۔اور جو بنگلور میں ایک 6 سالہ بچی کے سا تھ اسکول میں ہوا وہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ، تعلیم انسان کو شعور اور آگاہی دیتی ہے لیکن وہاں پر وحشی درندے پیدا ہوگئے۔

بھارت میں جنسی زیادتی کا ریکارڈ رکھنے والے قومی ادارے کے مطابق سوا ارب کی آبادی کے اس ملک میں ہر 20 منٹ بعد ریپ ہوتا ہے اور ہر روز ملک میں جنسی زیادتی کے 96 مقدمات درج ہوتے ہیں۔یہ ان واقعات کی رپورٹس ہیں جو لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اس کے علاوہ بیشمار اور ان گنت واقعات ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے میڈیا اور لوگوں تک نہیں پہنچتے ۔

ریپ کے واقعات میں اکثریت نوجوان طبقے کی ہے جن کی عمریں 16 سے 18 سال ہے۔تاہم یہ نوجوان جو وینا ئل جسٹس ایکٹ کے ہونے کی وجہ اس سنگین جرم کی سزا سے بچ جا تے ہیں۔اس مسئلے کے پیش نظر بھارت میں ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت کوئی بھی شخص جو ریب کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے اس کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ، پھر چاہے ان کی عمریں 18 سا ل سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔
اس قانون کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔بھارت میں خواتین اور بچوں کی فلاحو بہبود کی مر کزی وزیرمینکا گاندھی کا کہنا ہے نا بالغوں کو بالغوں کے زمرے میں لانے سے جرم کم ہو گا اور مجرموں کے دلوں میں قانون کا خوف ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان زیادتیوں کا نشانہ بننے والا اکثر اور بیشتر کمزو ر اور نا تواں طبقہ ہے۔جن میں سے اکثر جرم کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔
تاہم بھارت میں جاری مباحثے میں سیاستدانوں کی جانب سے بھی ایسے ایسے بیانات سامنے آئے کہ لوگوں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔

ارے بھا ئی ریپ کوئی جان بوجھ کر تھوڑا ہی کرتا ہے بلکہ یہ دھوکے سے ہو جا تا ہے ۔

ارے یہ لڑکے ہیں غلطی ہو جا تی ہے ، آپ اس کے لیے پھانسی کی سزا دیں گے کیا؟

ریپ کو کیسے رو کیں ریپ کرنے والے بتا کہ تھوڑا کرتے ہیں۔

ریپ کرنے والوں کو نہیں بلکہ انکے باپ کو سزا دی جا ئے۔

لڑکیوں کو جڈو کڑاتے سکھا دو تاکہ اپنا تحفظ وہ خود ہی کریں۔

ریپ عورتوں کے نا مکمل لبا س کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

اچھا نہیں تو کوئی ایسی پتلوں ہی لڑکیوں کو سلوا دو جو ان کی حفا ظت میں معاون ثابت ہو۔

یہ وہ ساری باتیں ہیں جو بھارت کے معتبر سیاستدان دن رات ریلیوں ا ور ٹی وی کی ا سکرینوں پر کرتے اور اپنے نمبر بناتے ہیں اور بس بندہ ان سے ایک ہی بات پوچھے کہ اگر آپ کی بہو یا بیٹی اس گینگ ریپ کی زد میں آجاتی ہے تو پھر بھی با تیں آپ کو زیب دیں گی۔ ہر گز نہیں ، کیونکہ یہ مذاق ہمیشہ دوسروں پر ہی اچھے لگتے ہیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ جرم کرنے والے کو اپنے جرم کے مطابق سزا ملنی چا ہیے اور کسی کو کسی بھی وجہ سے کو ئی رعایت ملنی نہیں چاہیے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر جرم کرنے والا بلا تفریق جرم کرے تو اس کو سزا بھی سخت سے سخت دینی چا ہیے۔ لیکن اگر مجرم کے ذہن میں یہ بات ہو کہ قانون اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتا تو وہ درندہ بن جا تا ہے ، انسانیت کی صفت سے محروم ہو جا تا ہے، وہ اپنی ہوس کی آگ بجھانے میں نہ دن دیکھے گا اور نہ رات ، نہ اپنے نہ ہی غیر۔

اگر بھارت میں نئے قانون کا اطلاق ہوجاتا ہے اور ریب کے نوجوان مجرموں کو قانونی طور پر بالغوں ہی کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ تو پھر مجرم چھوٹا ہو یا بڑا ،عورت چاہے اسکول جائے یا بازار میں، کپڑے آدھے پہنے یا پورے ۔ کسی کو جرت نہیں ہو گی کہ کسی کی ماں اور بہن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔