(دنیا بھر سے) - پردیس میں عید

نادیہ آغا  منگل 29 جولائی 2014
میری نظر میں درحقیقت عید کے دن کی خوبصورتی ہی اپنے پیارو سے مل کے اس دن کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

میری نظر میں درحقیقت عید کے دن کی خوبصورتی ہی اپنے پیارو سے مل کے اس دن کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

عید دنیا بھر کے  مسلمانوں کے لئے اہم اور بڑا تہوار ہے۔ اس دن کی سب سے اہم بات وہ  اتحاد، محبت اور سخاوت ہے جس کا  مظاہرہ مسلمان دنیا کے کونے کونے سے کرتے ہیں۔ میری نظر میں درحقیقت عید کے دن کی خوبصورتی ہی اپنے پیارو سے مل کے اس دن کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہے۔ اپنوں کا ساتھ عید کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

 مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ عید کا تہوار مغربی ملکوں میں بھی بہت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے، جیسا کہ برطانیہ میں، جہاں دنیا بھر کے مسلمان خاص طور پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

پاکستان کی طرح برطانیہ کے بڑے شہروں میں بھی عید کی تیاریاں چاند رات سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ رات گئے تک باہر ہوتے ہیں،  خواتین اور بچیاں  بیوٹی پارلر سے مہندی لگواتی ہیں اور یہ تیاریاں آدھی رات تک جاری رہتی ہیں۔ ایسے میں  برطانوی پولیس لوگوں کی حفاظت کے لئے خاص انتظامات کرتی ہے اور سیکورٹی کے یہ سلسلہ عید کے روز تک جاری رہتا ہے۔ برطانوی پولیس کی طرف سے عید کے روز خصوصی پریڈ بھی کی جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کے مسلمانوں کے تہوارمیں برطانوی حکومت بھی ان کے ساتھ شامل ہے۔

ویسے تو برطانیہ کے بڑے شہروں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں شہر کی مرکزی مسجدوں میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہاں عید کی نماز صرف مسجدوں تک محدود نہیں ہوتی ہے۔ بڑی مسجدوں کے علاوہ  یہاں پر بھی مسلمانوں  کے  خصوصی کمیونٹی سینٹرز بھی  موجود ہیں جہاں پر قریبی لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر علاقے کی مرکزی مساجد کافی دور واقع ہیں۔ لہذا لوگ وقت پر عید نماز ادا کرنے کی خاطر انہی کمیونٹی سینٹرز کا رُخ کرتے ہیں۔

برطانیہ میں عید کی سب سے خصوصی بات جو کہ مجھے بے حد پسند  ہے وہ یہ کہ  خواتین اور مرد حضرات دونوں مسجد میں جاکر عید کی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجدوں میں ایک حصّہ خواتین کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے، جہاں اکثر خواتین اپنے بچوں کو ساتھ لے کے عید نماز ادا کرنے جاتی ہیں، ایسا کرنے سے نہ صرف دوسری مسلمان خواتین سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے بلکے بچوں کو بھی اسلامی تہوار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد وہ لوگ جو یہاں پر کافی عرصے سے آباد ہیں عید کا باقی دن اپنے رشتے داروں  یا قریبی دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں. بلکل اسی طرح جیسے پاکستان میں عید کا دن گزارا جاتا ہے.

مگر وہ لوگ جو یہاں اکیلے رہتے ہیں، خاص طور پر طلبہ، ان کے لئے عید کا دن اپنوں کے بغیر گزرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں بڑی تعداد برطانیہ میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں. ان طلبہ کے لئے اپنی پڑھائی چھوڑ کے سال میں دو مرتبہ عید کے لئے پاکستان جانا کافی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن بھی ہے۔ لہذا انہیں پردیس میں اپنوں کے بغیر ہی عید گزارنی پڑتی ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بیچارے طلبا کو تنہا عید گزارنی پڑے۔

برطانیہ کی ہر یونیورسٹی میں طلبہ کی مذہبی اور قومی  تنظیمیں ہوتی ہیں، ان تنظیموں کا مقصد طلبہ کی فلاح و بہبود اور مدد کرنا ہے۔ تاکہ دریائے غیر سے آنے والے پردیس میں تنہائی اور پریشانی کا شکار نہ ہو جائیں۔ عید کے موقع پر ان تنظیموں کا کام اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے. عید نماز کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ عید کے بقیہ دن کی ذمداری بھی انہی تنظیموں کے اوپر عائد ہوتی ہے۔

 یونیورسٹی کے بڑے ہال میں مسلمان طلبہ کے لئے عید کے خاص پروگرام اور ڈنر کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جہاں مسلمان ممالک کے مشہور لوازمات تیار کئے جاتے ہیں۔ ان لوازمات کا مزہ لینے کے ساتھ طلبہ کو دوسرے ممالک کے طلبہ کے ساتھ گفتگو کا اور ایک دوسرے کی ثقافت کو جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

میرے خیال میں پردیس میں عید کے روز ان سب چیزوں کا میسر ہونا سمندر پار سے آئے پاکستانیوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ظاہر سے انہیں مسلم ممالک خاص کر پاکستان میں گزارے ہوئے عید کے لمحات بےحد یاد آتے ہونگیں، لیکن یہ بیرون ملک میں مقیم دیگر افراد اور مختلف تنظیموں کی جانب سے یہ چھوٹے چھوٹے انتظامات بھی وقتی طور پر ان کا غم غلط کرنے اور عید کی خوشیاں دوبالا کرنے کے لئے کافی حد تک کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔