استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 17 برس ہوگئے

ویب ڈیسک  ہفتہ 16 اگست 2014
نصرت فتح علی خان اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جایا کرتے تھے کہ وہ اس کا حصہ محسوس ہوتے تھے فوٹو: فائل

نصرت فتح علی خان اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جایا کرتے تھے کہ وہ اس کا حصہ محسوس ہوتے تھے فوٹو: فائل

کراچی: فنِ قوالی اور کلاسیکی موسیقی کو نئی جہتوں سے متعارف کروانے والے استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 17 برس بیت گئے۔ 

نصرت فتح علی خان نے 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں ملک کے معروف قوال فتح علی خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے بعد جالندھر سے ہجرت کرکے فیصل آباد کو اپنا مسکن بنایا۔ نصرت فتح علی خان کے والد انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن ان کے والد کی خواہش کے برعکس ایک اور دنیا اپنی تسخیر کے لئے نصرت فتح علی خان کی منتظر تھی۔پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ ان ہی دنوں کی یادگار ہے لیکن آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر گیبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔

بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی، ہالی ووڈ میں ان کے فن کے ڈنکے بجنے کی دیر تھی کہ بالی ووڈ نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جایا کرتے تھے کہ وہ اس کا حصہ محسوس ہوتے تھے، ساز و آواز سے نصرت کی روح اور دل کی ہم آہنگی ہی کے باعث سننے والے ان کے کلام میں کھو جایا کرتے ہیں۔

1997 کو آج ہی کے روز محض 48 برس کی عمر میں انہوں نے اس دار فانی سے کوچ کیا لیکن  فنِ قوالی اور کلاسیکی موسیقی کو نئی جہتوں سے متعارف کروانے والے نصرت فتح علی خان ہمیشہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔