سانحہ ماڈل ٹاؤن؛ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے تعین کیلئے کمیٹی قائم

ویب ڈیسک  منگل 26 اگست 2014
کمیٹی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کا تعین کرکے سفارشات وزیراعلیٰ کو بھجوائے گی ،
  فوٹو؛فائل

کمیٹی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کا تعین کرکے سفارشات وزیراعلیٰ کو بھجوائے گی ، فوٹو؛فائل

لاہور: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں ذمہ داروں کے تعین کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جبکہ اس کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سانحہ  پر پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کو ختم کرکے نئی ایف آئی ار درج کرنے کی سفارش کی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی ہدایت پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے تعین کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کرکے سفارشات وزیراعلیٰ کو بھجوائے گی، جسٹس خلیل الرحمان خان کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی میں سیکریٹری قانون اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شامل ہیں جبکہ کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا از سر نو جائزہ بھی لے گی۔

دوسری جانب ایکسپریس نیوز نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنےوالی 10 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ حاصل کرلی ہے، جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ عارف چوہدری تھے جبکہ دیگر ممبران میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، اسپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی کے ارکان شامل تھے، جے آئی ٹی کی رپورٹ 32 صفحات پر مشمل ہے جس میں ایک اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عوامی تحریک کی جانب سے فائرنگ کے شواہد سامنے نہیں لائے گئے۔

انویسٹی گیشن رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر کو خارج کرنے اور نئی ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن سے بیریئر  ہٹانے کا فیصلہ 16 جون کو رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا جبکہ ماڈل ٹاؤن میں کس نے کس کو کس وقت تشدد کا نشانہ بنایا اس کا تعین بھی نہیں ہوسکا ہے تاہم اس دوران ہلاکتوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ پولیس کے زیر استعما ل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ واقعے کی چین آف کمانڈ سے تحقیقات نہیں کی گئیں اس لیے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا، رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے علاقہ مکینوں کے مطابق ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی لیکن اس کے واضح ثبوت موجود نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔