موجودہ سیاسی بحران پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، ارکان کی دھواں دھار تقاریر

ویب ڈیسک  منگل 2 ستمبر 2014
حکومت کو اپنی جماعت کے وزرا کے تکبر اور رعونت پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز

حکومت کو اپنی جماعت کے وزرا کے تکبر اور رعونت پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں موجودہ سیاسی بحران پر ارکان کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف سمیت حکومتی وزرا اور اپوزیشن رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ چوہدری نثار نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارلیمنٹ پر حملہ اور سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹر میں حملے کو دہشتگردی اور ملک سے بغاوت قرار دیا۔

اس موقع پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت اور کابینہ برقرار رہے گی اور اپوزیشن جماعتیں جمہوریت اور حکومت کے ساتھ ہیں لیکن وزیراعظم نواز شریف کو موجودہ بحران کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔ انہوں نے وزیراعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی آپ کو استعفی دینے پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن حکومت کو اپنی جماعت کے وزرا کے تکبر اور رعونت پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اعتزاز احسن نے واضح کیا کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے خلاف یلغار غیر قانونی ہے،حکومتی وزرا کو اس امتحان سے سیکھنا ہوگا جبکہ  پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ مجبوراً کھڑی ہے اورغیر مشروط حمایت جاری رہے گی۔

پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش پکڑ لی گئی ہے اور ملکی سیاسی قیادت جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کو ناکام بنا دے گی،بات نواز شریف کی نہیں بلکہ منتخب وزیراعظم کی ہے،جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم سے استعفی نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی وہ چھٹی پر جائیں گے بلکہ وزیراعظم  پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کی تذلیل ہورہی ہے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کردی گئی، آج کے بعد حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو جتھوں سے پاک کردیا جائے،اگر صوفی محمد پر بغاوت کا کیس بن سکتا ہے تو پارلیمنٹ پر حملہ کرنے پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج ہونا چاہیئے، کسی نے نظام لپیٹنے یا مائنس ون کا فارمولا بنایا تو وہ ناکام ہوچکا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم سول نافرمانی کا اعلان کرتے تو ہم پر آرٹیکل 6 لگا دیا جاتا لیکن دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ نے سول نافرمانی اور ہنڈی کے ذریعے پیسے لانے کے لئے عوام کو مشورہ دیا ان پر غداری کا مقدمہ درج کیوں نہیں کیا جاتا جبکہ کل خوشخبری سنائی گئی کہ وہ کراچی آکر شہر کو آزاد کرائیں گے، انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان سب کیلیے ہے اور سب اس کے برابر کے شہری ہیں،کراچی کو آزاد کرانے والے پہلے کشمیر کو آزاد کرائیں۔ حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ سارے خاندان کو پارلیمنٹ میں لے آنا جمہوریت بھی جمہوریت نہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا آج سب اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو روکیں گے جس پر تمام جماعتیں متفق ہیں، پارلیمنٹ پر حملہ بغاوت اور دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے، حکومت نے 50 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی جگ ہنسائی کرادی۔ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 نافذ ہے اس کے باوجود مظاہرین اسمبلی میں کس طرح داخل ہوگئے، مظاہرین کو ہر حال میں پارلیمنٹ چھوڑ کر جانا ہوگا۔پارلیمنٹ کے باہر خیمہ زنی دیکھ کر افسوس ہورہا ہے۔محمود اچکزئی نے کہا کہ ملکی سیاست اور سیاسی جماعتیں درست راہ پر چل پڑی ہیں، اگر تمام جماعتیں آئین کی بالادستی کے لئے احتجاج کا اعلان کردیں تو پورے ملک میں 5 کروڑ عوام سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔

ایوان بالا اور ایوان ذیلی کا مشترکہ اجلاس 4 گھنٹے تک جاری رہا جس کے دوران اراکین کو کھل کر اظہار خیال کرنے کا وقت دیا گیا جس کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کل صبح 11 بجے تک کے لئے ملتوی کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔