کسانوں کا بدترین استحصال

زبیر رحمٰن  بدھ 3 ستمبر 2014
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں آج بھی عوام کی اکثریت کا بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار زراعت سے ہی جڑا ہوا ہے۔ زمین جاگیرداروں، بورژوا سیاسی رہنماؤں، جنرلوں، کارپوریٹ کمپنیوں، پیروں اور گدی نشینوں کے قبضے میں ہے۔ کسان خواتین کے ساتھ عصمت دری کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ کسان صحت کی سہولتوں کے لیے شہر کے سرکاری اسپتالوں کے باہر فٹ پاتھوں پر ڈیرے ڈالے اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں۔

انھیں نجی جیلوں میں قید کر کے جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔ ریاستی مشینری جاگیرداروں کی حمایت و معاونت کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کے تحت 28 لاکھ ایکڑ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا، عملاً صرف 8 لاکھ ایکڑ زمین ہی تقسیم ہو پائی۔ 91 لاکھ ایکڑ زمین عدم آب کی وجہ سے ابھی تک بنجر پڑی ہے۔ جن کے پاس 150 ایکڑ سے زائد زمین ہے ان کی تعداد 0.23 فیصد ہے اور وہ 9.1 ملین ایکڑ کے مالک ہیں جب کہ 5 ایکڑ سے کم زمین کے مالکان کل آبادی کے 66.56 فیصد ہیں۔ پنجاب میں امیر کسان 0.55 فیصد جب کہ غریب کسان 82 فیصد ہیں۔ تقریباً سوا کروڑ ایکڑ زمین فوجیوں کو انعام کے طور پر دی گئی ہے۔

ہمارے حکمراں اہم اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ زمینوں کو بیچ کر مزید کسانوں کو بے روزگار کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عرب امارات کی کمپنیاں بلوچستان میں 40500 ایکڑ زمین صرف 40 ملین ڈالر میں خرید چکی ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں 2 لاکھ ایکڑ زمین خریدنے کے مرحلے میں ہے۔ سعودی عرب نے بھی 5 لاکھ ایکڑ زمین خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

10 لاکھ ایکڑ زمین یورپی کمپنیاں خریدنا چاہتی ہیں۔ مختلف عرب کمپنیاں سندھ کے ساحلوں کے جزیرے خریدنے کی بات چیت کر رہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو زمین بیچنے کا عمل جا ری رکھنے سے نہری اور زیر زمین پانی پر اپنا کنٹرول بڑھائیں گے۔ ایک تو بڑی مشکل سے ہاری کمیٹی نے کسانوں کے حقوق پر قانون سازی کے لیے جدوجہد کی۔ سندھ ٹینینسی ایکٹ، جبری مشقت، بٹائی، بیگار، منشیانہ (حساب کتاب کا خرچ، کمدار یا منشی کا حصہ) کمیانہ، بھگا (پیروں اور مولیوں کا حصہ) کی کٹوتیوں کے خلاف ابتدائی جدوجہد کی۔

1950 میں سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کے بعد جاگیردارانہ مفادات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون سازی پر حکمران مجبور ہوئے۔ اس سلسلے میں کسانوں کے لیے مندرجہ ذیل حکومت کو دی جانے والی کچھ تجاویز یوں ہیں۔ پاکستان میں ایسے جاگیردار ہیں جن کے پاس 5 ہزار ایکڑ تک زمینیں ہیں، اگر ایک ایک ایکڑ کر کے فی خاندان بانٹ دیا جائے تو بھی 5000 خاندان باروزگار ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام کارپوریٹ فارمنگ کو بحق عوام بلامعاوضہ ضبط کر لیا جائے۔

اس لیے بھی کہ وہ ہمارے ملک سے پہلے ہی بہت لوٹ چکے ہیں۔ تمام نوکر شاہی (وردی، بے وردی) کو تحفے میں دی گئی لاکھوں ایکڑ زمین بے زمین کسانوں میں مفت بانٹ دی جائے۔ کاشت کے لیے تمام زمینوں کو مساوی بنیاد پر پانی کی ترسیل کی جانے کی ضرورت ہے۔ ٹیوب ویل کے لیے بجلی مفت یا ٹیوب ویل کے لیے سولر سسٹم 90 فیصد رعایتی نرخوں پر دیا جائے۔ کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی مشینری پر 50 فیصد رعایت دی جائے اور زرعی بینکوں سے 50 فیصد کم شرح سود پر کسانوں کو قرضے دیے جائیں۔ کھیت مزدور، ہاریوں اور بے زمین کسانوں کو مفت رہائشی مکانات فراہم کیے جائیں۔

بیگار (چھیڑ، ونگار) کو جبری مشقت قرار دے کر جبری مشقت لینے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ زمین کی کاشتکاری یا ہمواری میں مشینی اخراجات جاگیردار اور زمیندار ادا کرے۔ ٹیننسی ایکٹ کسانوں کے مفاد کے تحت از سرنو ترتیب دیا جائے۔ کپاس کی چنائی سے ایک ماہ قبل زہریلے اسپرے فصلوں پر بند کیے جائیں۔ کسان جہاں پر 10 سال سے گھر بنا کر کام کر رہا ہو وہ زمین کسانوں کے گھر کے لیے کسانوں کے نام کی جائے۔ جس زمین پر کسان کام کرتا ہے اس کی فروخت کرنے کا حق کسان کو ہی دیا جائے۔ تمام غیر سرکاری اور غیر حاضر مالکوں کی زمین مقامی مزارعوں، ہاریوں اور کھیت مزدوروں میں تقسیم کی جائے۔

قدرتی چراگاہ، جنگلات پر جاگیرداروں کی طرف سے قبضے اور کٹائی کو روکا جائے، اور اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ مشترکہ چراگاہوں اور جنگلات کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ ایسی مشترکہ چراگاہیں اب بھی جہلم، کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، تھرپارکر اور پختونخوا کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔ قدرتی جھیلوں میں آر بی او ڈی، ایل بی او ڈی اور سیم نالوں کا زہریلا پانی چھوڑ کر برباد کرنا بند کیا جائے، جس سے آبی حیات کو خطرہ لاحق ہے۔ کاشت کاری اور پینے کے پانی جیسے مسئلے پیدا ہوتے ہیں، اس لیے آر بی او ڈی اور ایل بی او ڈی کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جائے۔

صوبہ سندھ کے ساحل سمندر کے جزائر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فروخت کرنے کے عمل کو روکا جائے۔ تمام دیہاتوں میں تعلیم اور صحت کے بنیادی مراکز قائم کیے جائیں۔ دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے۔ پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور گاؤں سے منڈٖی تک پیداوار کی ترسیل کے لیے سڑکیں تعمیر کی جائیں۔ دیہی علاقوں میں زرعی اسکولوں کا آغاز کیا جائے، جہاں پر کسانوں کے بچوں کو زرعی تعلیم دینا لازمی قرار دیا جائے۔

گزشتہ دنوں 14 اگست کو انقلاب مارچ شروع کرنے سے قبل طاہر القادری نے 10 نکاتی انقلابی مطالبہ پیش کیا، جس میں انھوں نے کسانوں میں زمین بانٹنے، بے گھروں کو گھر دینے، بے روزگاروں کو روزگار دینے، پینے کا صاف پانی مہیا کرنے، دال، چاول، آٹا، تیل اور چینی سمیت تمام خورونوش کی اشیا کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کرنے، مفت علاج اور تعلیم کو لازمی کرنے کی بات کی ہے۔ یقیناً یہ باتیں کسانوں، مزدوروں اور شہریوں کے لیے سودمند اور دیرینہ مطالبہ ہے، لیکن یہ کام اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کیا ممکن ہے؟

گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہمارے حکمرانوں نے 5.15 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت عوام کو بجلی میں جو 60 ارب روپے رعایت (سبسڈیز) دیتی تھی اب یہ رقم آئی ایم ایف کو قرضہ جات اور سود کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔ پاکستان جب بنا تھا تو ایک ڈالر ایک روپیہ کا تھا اور اب 100 روپے سے زائد کا ہو گیا ہے۔ یہ صرف آئی ایم ایف، اے ڈی بی، ڈبلیو بی، کنسورشیم اور دیگر سامراجی اداروں سے قرضے لینے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ امریکی سامراج ہمیں ایک ڈالر قرضہ دے کر دیگر ذرایع سے 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ پاکستان جب بنا تو تعلیم، صحت اور دفاع کے بجٹ تقریباً برابر تھے اور اب ہمارے بجٹ کا ایک تہائی سامراجی قرضوں، سود کی ادائیگی اور ایک تہائی دفائی بجٹ پر خرچ ہو جاتا ہے۔

2013-14 کے بجٹ میں دفاع کے لیے 800 ارب روپے اور صحت کے لیے 27 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں وزیر اعظم نواز شریف نے 6 ارب، 3 ارب اور پھر 1.5 ارب ڈالر کے جو قرضے اور امداد حاصل کی ہیں وہ آئی ایم ایف اور آئی پی پی ایس کو لوٹانے میں خرچ ہو گئے۔ قادری صاحب بتائیں کہ سامراجی قرضوں کو بحق عوام ضبط کیے بغیر 20 کروڑ عوام کو فوجی تربیت دیے بغیر، ان کی تجویز کے مطابق عوام کو مندرجہ بالا سہولتیں فراہم کرنا ممکن ہے؟ سامراجی تسلط کے مسائل ہوں یا کسانوں کے ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی یا امداد باہمی کے معاشرے میں ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔