معاملات سلجھانے کے لیے لچک دکھانا ہوگی

ارشاد انصاری  بدھ 3 ستمبر 2014
تحریک انصاف کے جن اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے خود آکر استعفے دیئے گئے ہیں، ان کے استعفے فوری منظور کرنے کا کہا گیا ہے۔  فوٹو: فائل

تحریک انصاف کے جن اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے خود آکر استعفے دیئے گئے ہیں، ان کے استعفے فوری منظور کرنے کا کہا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے دیئے جانے والے دھرنے تیسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں لیکن معاملہ آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں دو ہفتے پہلے تھا تاہم معاملات حل کرنے کےلئے فریقین کو لچک دکھانا ہوگی۔

اس دوران تمام سیاسی و سماجی رہنماوں و عمائدین و دیگر سٹیک ہولڈرز کی طرف سے معاملے کو سلجھانے کی کوششیں کی گئیں اور کئی مرتبہ معاملہ حل ہونے کے قریب بھی پہنچا مگر نجانے پھر اچانک کچھ ایسا ہو جاتا جو معاملے کو نیا رُخ دے دیتا اور آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز معاملے کو حل کرنے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ہم پہلے بھی ان سطور میں یہ لکھ چُکے ہیں کہ یہ معاملہ جتنا طول پکڑے گا حالات اتنے ہی گھمبیر ہوں گے۔

ماضی قریب اس بات کا گواہ ہے کہ یہ خدشات درست ثابت ہوئے اور ملک کی پوری دنیا میں اس وقت جگ ہنسائی ہوئی جب اس ملکی ریاست کی علامت ادارے پاکستان ٹیلی ویژن میں مشتعل مظاہرین نے داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی بلکہ قبضہ بھی کرلیا اور پی ٹی وی کی نشریات کو بند کردیا گیا۔

پاک فوج کے جوانوں نے آکر صورتحال کو کنٹرول کیا اور مظاہرین سے قبضہ چھڑوایا اور نشریات بحال ہوئیں مگر تاریخ میں سرکاری ٹی وی پر مُٹھی بھر مظاہرین کا قبضہ کے الفاظ رقم ہوگئے اورصورتحال کے طول پکڑنے سے وہ انتہاء پسند و شدت پسند قوتیں جنہوں نے مملکت کو خون سے نہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جنہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے مسئلہ افواج کے نڈر و بہادر جوان قربانیاں دے رہے ہیں اور ایسے حالات میں کہ جب شمالی وزیرستان میں پاک افواج ان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کُن جنگ کامیابیوں سے ہمکنار کر رہی ہے۔

ایسے میں یہ دھرنے اور ریاستی علامت کے حامل اداروں پر قبضہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے اور اس کا نتیجہ ہم نے دیکھا کہ وہ بزدل انتہا پسند و شرپسند دہشت گرد جو بلوں میں جا چھُپے تھے انہوں نے اپنی بلوں سے سر نکالنا شروع کیا اور انہیں یہ جرات ہوئی کہ وہ یہ بیان دیں کہ پاکستانی حکومت چند ہزار لوگوں کے سامنے بے بس ہوگئی ہے۔ اس سے ان کی(دہشت گردوں کی) منزل مزید آسان ہوگئی ہے۔

تمام طبقات انہی خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور مسئلہ کے فوری حل کیلئے فریقین کی منت سماجت کرتے دکھائی دیئے ہیں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ جب پوری قوم آپریشن ضرب عضب میں پاک افواج کے پیچھے کھڑی ہے تو ایسے وقت میں ملک میں کسی قسم کا ایسا سیاسی محاذ کھڑا کرنا قطعی طور پر درست نہیں ہے جس سے پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت کو کسی نئے امتحان میں ڈالا جائے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں کو ریاستی علامت کے اداروںکی حفاظت پر مامور کرنا پڑا اور آج دو ہفتے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے کہ پاک فوج ان اداروں کی حفاظت پر مامور ہے اورسازش کو اس قدر ہوا دی گئی کہ اب مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بھی ناپاک کوششیں کی جا رہی ہے جس کا آغاز نئے پاکستان کا نام لے کر عوام کو سڑکوں پر لانے والوں کی طرف سے کیا گیا جنہوں نے اپنی شعلہ بیانی و بے سر وپا تقاریر میں نصف درجن سے زائد مرتبہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے اور منتخب وزیراعظم کے آوٹ ہونے کی باتیں کیں جس کے باعث مختلف کارنر سے کپتان کے اس ذومعنی جملوں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کے وکیل سے اس کی وضاحت لینا پڑی۔

تحریک انصاف کے وکیل نے یہ کہہ کر تاثر زائل کرنے کی کوشش کی کہ تھرڈ ایمپائر کا مطلب اللہ میاں ہیں مگر اس صفائی پیش کئے جانے کو بھی کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری نے ایسی ذومعنی باتیں کرنا شروع کردیں ۔ پھر جب حکومت نے آرمی کو مسئلہ حل کرنے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی اجازت دی اورآرمی چیف نے عمران خان اور طاہر القادری کو ملاقاتوں کیلئے بُلایا تو ان دونوں رہنماوں نے آرمی چیف سے ملاقاتوں کے بعد معاملے کو سلجھانے کی طرف لے جانے کی بجائے ایک نیا رُخ دیدیا۔ طاہر القادری نے اپنے جوشیلے خطاب میں کہہ دیا کہ حکومت نے آرمی کو ثالث بنایا ہے جس نے معاملے کو ایک نیا رُخ دیدیا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی قومی اسمبلی میں دھواں دار تقریر اور جواب میں وزیراعظم کی تقریر سے دھرنوں کا مسئلہ حل کرنا تو پس پُشت چلا گیا اور ایک نئی بحث چھڑ گئی لیکن مقتدر حلقے معاملے سلجھانے اور مذاکرات کو ٹریک پر لانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے کہ طاہر القادری نے وزیراعظم ہاوس کی طرف سے جانے کا اعلان کردیا۔

عمران خان نے بھی تحریک انصاف کے دھرنے کے شرکاء کو چلنے کا کہا۔ اس نازک موڑ پرکپتان نے طاہر القادری کی درخواست کو فُل ٹاس بال سمجھ کر چھکا لگانے کی کوشش کی۔ مگر سیاست کے میدان کے اصول کرکٹ کے میدان کے اصولوں سے مختلف ہوتے ہیں اور وہی ہوا فی الحال چھکا تو نہ لگ سکا مگر بال باونڈری پر کیچ ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کے منصوبے کا چوک میں بھانڈہ پھوڑ کر پوری کردی۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان نے فوج اور سپریم کورٹ کو بدنام کیا، وہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں جس کا باقاعدہ اسکرپٹ لکھا ہوا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ سب منصوبہ بندی کس نے کی ہے، عمران خان نے سیف اللہ کے اشارے پر بات مان لی، عمران خان کو میری اصولی باتیں پسند نہیں آئیں، انہوں نے مجھ سے چلے جانے کو کہا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کو درخواست دینے کا کہتے ہوئے کہا کہ آنے والے چیف جسٹس ہمارے اپنے ہیں ان سے طے ہو چکا ہے کہ وہ اس حکومت کو فارغ کردیںگے اور ان کے حکم پر ستمبر میں الیکشن ہوں گے، عمران خان نے سپریم کورٹ کو بدنام کیا۔

مذکورہ صورتحال کے بعد آرمی چیف کی وزیراعظم نوازشریف سے دو گھنٹے سے زائد دورانیے کی طویل ملاقات ہوئی جس سے آرمی چیف کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دینے کی افواہیں گردش کرنا شروع ہوگئیں جس کی آئی ایس پی آر نے بروقت نوٹس لیتے ہوئے سختی سے تردید کی۔

آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے سیاسی پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماوں نے سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیس میں فریق بننے اور جمہوریت کی جدوجہد میں وزیراعظم کا مکمل ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے اوردوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ آئین کی بالا دستی اور جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور کہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، جمہوریت سے انحراف پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا جبکہ وزیراعظم محمدنوازشریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ نہ تو استعفیٰ دیں گے نہ ہی چھٹی پر جائیں گے۔

ایک ہفتہ تک پارلیمنٹ کا مُشترکہ اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اورگزشتہ روز پارلیمنٹ کے مُشترکہ اجلاس کے پہلے روز اراکین پارلیمنٹ نے دھواں دار تقاریر کیں اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان و ان کے ساتھیوں کے خلاف ریاستی اداروں پر حملہ کرنے اور قبضہ کرنے والوں کے خلاف بغاوت کی کاروائی کرنے کا کہا ہے۔ تحریک انصاف کے جن اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے خود آکر استعفے دیئے گئے ہیں، ان کے استعفے فوری منظور کرنے کا کہا گیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کو دھرنے والوں سے پاک کیا جائے اور ان سے انتظامی سطح پر نمٹا جائے، ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہ کی جائے لیکن دوسری جانب حکومت کی جانب سے پھر سے یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس کیلئے آٹھ رُکنی کمیٹی بھی قائم کی ہے مگر اب دوسری جانب سے بھی لچک کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے کیونکہ اب مظاہرین بھی اُکتا چُکے ہیں اور ان قائدین کی عزت بھی اسی میں ہے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔