9 سیٹر رکشے شہریوں کیلیے وبال جان بن گئے

اسٹاف رپورٹر  بدھ 24 ستمبر 2014
قیوم آباد سے ایکسپریس وے کو جانیوالی سڑک پر رکشوں کے باعث گاڑیوں کا گزرنا محال ہوگیا، ٹریفک پولیس اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود رکشے کھڑے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

قیوم آباد سے ایکسپریس وے کو جانیوالی سڑک پر رکشوں کے باعث گاڑیوں کا گزرنا محال ہوگیا، ٹریفک پولیس اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود رکشے کھڑے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: قیوم آباد چورنگی پر نوسیٹر سی این جی رکشا کے غیر قانونی اسٹینڈ نے ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کر دیا،سیکشن آفیسر نے بھاری رشوت کے عوض ماتحت عملے کو غیر قانونی اسٹینڈ پر کھڑے ہونے والے رکشاؤں کو تحفظ فراہم کرنے پر مامورکردیا جبکہ مذکورہ چوک پر ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا۔

ایس او ٹریفک کا کہنا ہے کہ وہ افسران بالا کو پیسے دے کر آیا ہے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جبکہ ملنے والا بھتہ محکمے کے چھوٹے سے لے کر  اعلیٰ افسر تک پہنچایا جاتا ہے، تفصیلات کے مطابق قیوم آباد چورنگی کے قریب بلوچ کالونی ایکسپریس وے اور ڈیفنس ویو جانے والے راستے پر زمان ٹاؤن ٹریفک پولیس کے سیکشن آفیسرکی سرپرستی میں قائم 9 سیٹر سی این جی رکشا اسٹینڈ کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا جہاں دن بھر ٹریفک جام میں گاڑیاں پھنسی رہتی ہیں۔

سی این جی رکشا ڈرائیوروں کی غنڈہ گردی کا اندازہ اس  بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر انھیں کوئی شہری ٹوک دے تو سب مل کر اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسے باور کراتے ہیں کہ وہ مفت میں نہیں کھڑے ہوئے ہیں، ٹریفک پولیس کو بھاری معاوضہ دیتے ہیں اور ہمارا جہاں دل کرے گا وہیں پر رکشے کھڑے کریں گے جس کا جو دل چاہے کرلے،اس حوالے سے ایس او زمان ٹاؤن اشرف سومرو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پورے شہر کی سڑکیں بکی ہوئی ہیں اگر میں نے رکشا کھڑے کرا دیے تو کونسی قیامت آگئی۔

انھوں نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ کہاں پیسہ نہیں چلتا میں بھی خرچہ کرکے آیا ہوں وہ کہاں سے پورا کروں، صرف اکیلا میں ہی نہیں کماتا مختلف رکشا اسٹینڈز سے ملنے والے بھتے کی رقم درجہ بہ درجہ چھوٹے سے لے کربڑے افسر تک پہنچائی جاتی ہے،لوٹ کھسوٹ کے اس کاروبار میں سب کو حصہ ملتا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں ورنہ کوئی سڑک پر ایک رکشا کھڑا کر کے تو دکھائے، ایس او کے مطابق ٹریفک پولیس کی اس وقت سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ سی این جی اور چنگ چی رکشا اسٹینڈز ہیں جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر صرف ٹریفک پولیس کو لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

علاقہ پولیس اور دیگر افراد وہاں سے اپنا علیحدہ سے حصہ وصول کرتے ہیں،ڈیفنس ویو کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ قیوم آباد چورنگی پر ٹریفک پولیس کی سرپرستی میں قائم نو سیٹر رکشا کے اسٹینڈ نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور وہاں سے گاڑی لے کر گزرنا محال ہوگیا جبکہ سی این جی رکشا اسٹینڈ پر بے ترتیب کھڑے کیے جانے والے رکشوں کی وجہ سے ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا، ڈیفنس ویو میں واقع نجی یونیورسٹی میں آنے والے طلبا کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ڈیفنس ویو روڈ سے قیوم آباد چورنگی کی جانب جانے کے انتظار میں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہے اور یہ سلسلے تقریباً دن بھر وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے جبکہ زمان ٹاؤن ٹریفک پولیس کے افسران و اہلکار خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

زمان ٹاؤن پولیس چوکی کے سیکشن آفیسر اشرف سومرو کے تمام معاملات ٹریفک پولیس کا اہلکار وسیم انجام دیتا ہے جو تمام غیر قانونی سی این جی اور چنگ چی رکشا اسٹینڈز سے بھتہ وصول کرتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس او کا بیٹر وسیم چوکی پر تعینات پولیس افسران و اہلکاروں کو ان کے پسندیدہ مقامات پر ڈیوٹی لگانے کے بھی پیسے وصول کرتا ہے اور ان کی جانب سے دن بھر کی جانے والی ’’کمائی‘‘ سے بھی اپنا حصہ طلب کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔