(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - دوستوں کی محفل

شبیر رخشانی  جمعرات 9 اکتوبر 2014
اب تو یہی دعا ہے  کہ  صدا سلامت رہے یہ محفلیں، قہقہے ، مسکراہٹیں اور صدا سلامت رہے اہل لیاری۔ فوٹو فائل

اب تو یہی دعا ہے کہ صدا سلامت رہے یہ محفلیں، قہقہے ، مسکراہٹیں اور صدا سلامت رہے اہل لیاری۔ فوٹو فائل

گلشن اقبال سے واپسی کا راستہ لیمارکیٹ کی طرف تھا۔ بس اسی دوران  مجھے کفایت اللہ قاضی یاد آگئے جن سے ملے کافی عرصہ ہو چکا تھا، فوراً  فون پر رابطہ کیا اوران سے ملاقات کا وقت لے لیا۔ لی مارکیٹ پہنچا تو حسب معمول موصوف نے مسکراہٹ بھرے انداز میں میرا استقبال کیا۔ ساتھ ہی ایک دوست بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ گلے ملنے کے بعد دوست کا تعارف کرتے ہوئے بولے کہ یہ ریاض جوگ ہیں۔ ریاض نہایت ہی ہنس مکھ معلوم ہوئے وہ چند ہی لمحوں میں جان پہچان کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ خوش گپیوں میں دوستوں نے گرما گرم چائے کا آرڈر یوں دے دیا کہ دو کا چار۔ پہلے مجھے تجسس ہوا کہ دو کا چار کیا ہوتا ہے لیکن جونہی بار والا چار کپ ہمارے سامنے رکھ کر رفو چکر ہو گیا تو مجھے دو کا چار سمجھ میں آگیا کہ دو دوست ایک کپ کو دو کرکے پی لیں تو اس سے دوستی کا رشتہ  مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ خیر دوستی کے اس رشتے کو مزید گہرا کرنے کے لئے ہمیں اس نئے طریقے پر عمل کرنا ہی پڑا ۔

اسی اثناء دیگر دوستوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری چھوٹی سی  نشست محفل کی شکل میں تبدیل ہوگئی ۔ میرے دوست کفایت اللہ قاضی  نے نہ صرف آنے والے مہمانوں سے میرا تعارف کرایا بلکہ  اس محفل میں میری شمولیت کو یقینی بنا لیا تھا، ان سب لوگوں کے لئے  ایسی محفل لگانا روز کا معمول ہے، یہ لوگ  دن بھر  کی اپنی  سرگرمیوں سے فارغ ہو کر ذہنی تسکین اور خوش گپیوں کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ جن جن دوستوں نے ہمیں جوائن کیا تھا ان میں رزاق سربازی، اکرم ہوت، وسیم ناروی، طارق مراد شامل تھے۔ یہ تمام ادب سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔

بیس فٹ چوڑی لی مارکیٹ کی یہ انتہائی مصروف شاہراہ  کے کنارے المکہ ہوٹل میں زیادہ تر کرسیاں جو ہماری محفل کے شروع میں خالی پڑی تھیں وہ اب آہستہ آہستہ لوگوں کی آمد کے ساتھ ساتھ فل ہو گئیں۔ دوستوں کی خوبصورت محفل نے اس مقام کو وہ خوبصورتی بخشتی تھی جسکا تصورآپ کسی بھی ہوٹل میں تنہا بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔ محفل میں مزاحیہ گفتگو شامل ہونے کی وجہ سے قہقہوں کی گونج نے گاڑیوں کے شور و غل پر حاوی رہی ۔ ریاض جوگ جو لیاری میں اسسٹنٹ لائبریرین کے خدمات انجام دے رہے ہیں اور اکرم ہوت جو ایک سماجی ورکر ہیں دونوں کے درمیان مزاحیہ جملوں کا ایک دوسرے پر حملہ جاری تھا جس پر موجود شرکاء داد دیئے اور ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔

اکرم ہوت انسانیت کی خدمت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ  انسانیت کی خدمت کرکے سکون حاصل کرنے کے متلاشی تھے جبکہ ریاض جوگ  اکرم ہوت کی سماجی سرگرمیوں سے نالاں انسان ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ جب تک انسان خود کفیل نہ ہو اسے دوسرے انسانوں کی خدمت کرنے کی  کیا ضرورت  ہے؟ جب انسان مالی طور پر مستحکم ہو تب اسے دوسروں کا سوچنا چاہئے۔ جبکہ اکرم ہوت اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت ہی سب کچھ ہے اگر آپ انسانیت کی خدمت کرو گے تو آپکی مصیبتیں خود بخود کم ہو جائیں گی بلکہ وہ اسکی مثال رسول پاک کی زندگی کو دیتے ہیں جنکی پوری زندگی عالم اسلام اور انسانیت کی خدمت میں گزری۔ کوئی بھی ایک دوسرے کے دلائل کو ماننے کو تیار نہ تھا ۔ اس سارے مباحثے  کے دوران   مجھے اکرم ہوت کے دل کے اندر ایک دکھ درد کی داستان چھپی نظر آئی جبکہ ریاض جوگ کافی زندہ دل معلوم ہوئے۔

دوستوں کی یہ محفل  نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے  میڈیا نے آج تک لیاری کو صرف گینگ وار کا اڈہ ہی قرار دیا ۔ لیکن شاید ہماری میڈیا یہاں کے بسنے والے زندہ دل انسانوں اور یہاں کے اہل دانش، اہل علم اور اہل قلم سے واقف ہی نہیں اسی لئے ان کا چہرہ آج تک دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے  کہ  انہی گولیوں کی گونج بھری دنیا میں قہقہے لگانے والے لوگ بھی بستے ہیں جو آج بھی اپنے روایتی ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے گلی گلی خوشیاں اور قہقہے بکھیر رہے ہیں۔

میں نے محفل میں موجود دوستوں کے سامنے اپنی رائے رکھی کہ چلیں ہم کسی پرسکوں جگہ بیٹھ کر بلا تکلف ایک دوسرے کی گفتگو سے بھر پور لطف اندوز ہوتے ہیں، جواب میں میرے  ساتھ ہی بیٹھے وسیم ناروی نے کہا کہ ہماری دنیا ہی یہی ہے اور اسی میں رہ کر ہم اسے خوب سے خوب تر بنانا ہی کمال  رکھتے ہیں۔  اس جواب پر مجھے اپنی الفاظ واپس لینے پڑے ،  اگر  آپ بھی لیاری کے ان خوب صورت لمحات کو اپنی یادوں میں قید کرنا چاہتے ہیں تو  شام کے فرصت ٹائم میں لیمارکیٹ کا ہوٹل المکہ کا رخ ضرور کیجئے، آپ کی ساری تھکن اتر جائے گی۔

شام کا حسین لمحہ شب تاریکی میں تبدیل ہو گیا تھا۔دوستوں کا محفل جاری تھا لیکن مجھے نہ چاہتے ہوئے  بھی ان  سے اجازت لینا پڑ ی کیونکہ لیمارکیٹ سے حب جانے والی بس میری منتظر تھی۔ میں دوستوں کی محفل سے کافی دور نکل چکا تھا لیکن انکے قہقہوں کی آواز اب بھی سنائی دی رہی تھی۔  اب تو یہی دعا ہے  کہ  صدا سلامت رہے یہ محفلیں، قہقہے ، مسکراہٹیں اور صدا سلامت رہے اہل لیاری۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔