(پاکستان ایک نظر میں) - کیا بلاول ایک بڑی پارٹی کے لیڈر لگتے ہیں؟

سالار سلیمان  منگل 21 اکتوبر 2014
بلاول نے ایک بار پھر سے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو بیچنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بلاول نے ایک بار پھر سے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو بیچنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بلاول کی لانچ کے بارے میں لگائے گئے تمام اندازے درست تھے تو اس کی “ری لانچ” کے بار ے میں ناقدین کے اندازے بھی غلط ثابت نہیں ہوئے۔ 18اکتوبر کا سانحہ کارساز کے مقتولین کی یاد میں منعقدہ جلسہ عام میں انہوں نے تقریباً نوے منٹ طویل خطاب کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی تقریباًتمام ہی سیاسی جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ اس سیاسی شو کے آفٹر شاکس اب بھی جاری ہیں اور مزید کچھ دنوں تک جاری رہے گا۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ بلاول کا سیاسی شو کامیاب تھا یا ناکام ۔اصل بات تو یہ ہے کہ کیا بلاول ایک بڑی پارٹی کے لیڈر لگتے ہیں؟ 

بلاول زرداری کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے مبینہ آخری خط اور اس تحریر کے مطابق پارٹی چیئر مین بنایا گیا جو انہوں نے اپنی موت سے قبل لکھا تھا۔ اور یوں بلاول کم عمری میں سیاسی میدان میں آگئے ۔ آغاز میں مہذہب انداز گفتگو کے حامل بلاول نے اچانک ہی اپنی توپوں کے رخ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف موڑ دیے۔ اللہ جانے بلاول کا اتالیق کون ہے لیکن بلاول کا لب و لہجہ باعث مزاح تو ہو سکتاہے لیکن باعث سنجیدگی ابھی تک نہیں ہے۔ ان کے لہجے سے جھلکتی ہوئے نسوانہ انداز تخاطب نے بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کر دیاہے ۔18 اکتوبر کے خطاب سے پہلے اسٹیج پر موبائل فون سے سیلفیاں بنانے والے بلاول نے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو بطور خاص اپنا نشانہ بناتے ہوئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ایک دوہرائے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ماضی میں بھی بلاول کے تیز بیانات ایم کیو ایم میں فاصلوں کا باعث رہے ہیں۔

ایک پارٹی لیڈر کی حیثیت سے ان کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں  کہاں وقفہ لینا ہے اور کہاں انہوں نے روانی اختیار کرنی ہے۔تقریر میں کہاں اشعار پڑھے جاتے ہیں اور کہاں ساونڈ پچ ایک دم بلند ی پر جاتی ہے۔ ان کے اتالیق اور والد محترم کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ تقریر ایک فن ہے۔ بھٹو جیسا انداز اپنا نا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے ساتھ لیڈر کی ایک ایک چیز بغور نوٹ کی جاتی ہے۔اس نے کپڑے کس رنگ کے پہنے تھے ، اس نے کوٹ کس رنگ کا زیب تن کیا، اس نے کون سی گھڑی پہن رکھی ہے، اس نے کب ہاتھ اٹھایا، وہ دوران تقریر کس طرح سے کھڑا تھا، اس کا سامعین کے ساتھ آئی کنٹیکٹ کیسا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر ان تمام تر معیارات کے 100 نمبر ہوں اور اس میں سے بلاول کو نمبر دیں تو ایمانداری کے ساتھ شاید وہ 33 نمبر بھی حاصل نہ کر سکیں۔ یہ درست ہے کہ ان کا اردو کا لب و لہجہ پہلے کی نسبت بہت درست ہے ،لیکن یہ پاکستان کی سیاست ہے جہاں پرفیکشن چاہئے ہوتی ہے ،اس مقابلے میں ان کے مد مقابل شہباز شریف، عمران خان، سراج الحق، مولانا فضل الرحمان اور دیگر لوگ موجود ہیں،ان کے ہوتے ہوئے ایک الگ نام بنا لینا ایک چیلنج ضرور ہے لیکن نا ممکن ہر گز نہیں ہے۔ بلاول کو اپنا بناوٹی لہجہ ترک کر کے مردانہ اور درست لہجہ اپنانا ہوگا۔ وگرنہ وہ جتنا مرضی ساؤنڈ پروف اور بلٹ پروف اسکرین کے پیچھے کھڑے ہو کر چیخ لیں لوگوں کو شاید کوئی خاص فرق نہ پڑ سکے۔

یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ موجودہ جلسوں کا ٹرینڈ تحریک انصاف کا طے کردہ ہے۔ ۔میرا خیال تھا کہ اٹھارہ اکتوبر کا یہ جلسہ شاید ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کر دے لیکن میں یہ دیکھ یہ مسکر ا ٹھا کہ منتظمین نے دوسروں کا سرخ چہرا دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار کر لال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ اس جلسے کا ڈی جے بھی تحریک انصاف کے ڈی جے بٹ نے فراہم کیا تھا ۔لیکن جوش و جذبہ تحریک انصاف والا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس جلسے میں حاضری بھی ماضی کے جلسوں کی نسبت بہت کم رہی تھی ،ماضی میں بھٹو اور بعد میں بے نظیر نے فقید المثال جلسے کئے ہیں۔ غیر جانبدار رپورٹس کے مطابق کروڑوں روپے کے خرچ کے باوجود 80 ہزار سے ایک لاکھ تک لوگ پورے پاکستان سے اکٹھے ہو سکے تھے۔ بلاول کی تقریر اور جیالوں کے ردعمل میں تال میل کی شدید کمی تھی اور بعض اوقات تو یوں بھی محسوس ہو ا کہ جیالے اپنے کاموں میں مگن ہیں اور بلاول نہ جانے کس سے خطاب کر رہے ہیں۔

بلاول کے خطاب میں موجود جھول اپنی جگہ پر ہیں لیکن انہوں نے ایک بار پھر سے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو بیچنے کی اپنی سی کوشش کی ہے جو کہ میر ی ناقص نظر میں شاید اب کامیاب نہ ہو سکے ۔ جو کام بھٹو نے کیا تھا کہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی محلوں کے کھمبوں تک پہنچا دیا تھا وہی کام عمران خان نے کیا ہے کہ بے زبان گونگوں کو زبان دے دی ہے اور اب سیاست گلی محلوں سے ہوتی ہوئی گھروں کی بیٹھک میں پہنچ چکی ہے ۔اب ہر کوئی سوال کرتا بھی ہے اور سوال کا جواب بھی چاہتا ہے ۔لہذا وہ وقت دور نہیں ہے جب کراچی میں پیپلز پارٹی کا اکٹھا ہونے والا ایک لاکھ بندہ اپنی لیڈر شپ سے سوال کر ے گا ۔ فی الوقت تو پیپلز پارٹی کے پاس صرف خواب اور پرانے نعرے بیچنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔

بلاول کو فوری طور پر اپنے اوپر سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئندہ بہتر انداز میں قو م سے مخاطب ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو روایتی ٹیم کی متبادل ایک اہل ٹیم بھی متعارف کروانی ہے جو کہ پیپلز پارٹی کے پرانے انکل حضرات کی بجائے نئے نوجوان خون پر مشتمل ہو۔ میری ناقص نظر میں چوہدری اعتزاز احسن اور رضا ربانی سے بہتر سیاسی اتالیق کوئی نہیں ہو سکتا ہے اور پارٹی کے شریک چیئر مین کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کو تربیت کیلئے چند سال کیلئے ان دو حضرات کے حوالے کر دیں۔ بلاول کا دامن ابھی تک سیاست میں صاف ہے اور اگر اگلے چار سال میں بلاول اپنی پارٹی کے روٹھے ہوئے قائدین اور ووٹ بینک کو لانے میں کامیاب رہے تو یہی ان کی بہت بڑ ی سیاسی کامیابی ہوگی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔