بیٹی کی خوشی کے لیے ساسوں کو ہر جتن کرنا پڑتا ہے

نادیہ فاطمہ  پير 27 اکتوبر 2014
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

ہمارے معاشرے میں جہاں ساس بہو کا رشتہ نازک، پیچیدہ اور حساس سمجھا جاتا ہے، وہیں ساس اور داماد کا رشتہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔

خصوصاً ساس صاحبہ کو اس رشتے کو خوش گوار اور با وقار بنانے میں کافی لچک اور مصلحت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر داماد صاحب ناراض ہو جائیں، تو پھر اس کا براہ راست اثر ان کی بیٹی کی زندگی پر پڑتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں دیگر رشتوں کی طرح ساس اور داماد کے رشتے میں بھی تنائو اور تلخی دکھائی دیتی ہے، جس کی سب سے اہم وجہ ساس کا اپنی بیٹی سے فون پر لمبی لمبی کالیں کرنا۔ بار بار گھر بلانا وغیرہ شامل ہیں۔ دامادوں کا شکوہ ہوتا ہے کہ ان کی ساسیں بیٹی کو زندگی کے طور طریقے سکھانے کے بہ جائے انہیں اکساتی ہی رہتی ہیں کہ سسرال والوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دو۔۔۔ ہر وقت گھر کے کام نہ کرتی رہا کرو۔۔۔ شوہر کو مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرو وغیرہ وغیرہ۔

یہ بات کوئی اتنی غلط بھی نہیں۔ بعض نا عاقبت  اندیش مائیں اپنی بیٹیوں کو رخصت کرنے سے پہلے ہی یہ سبق پڑھانا شروع کر دیتی ہیں کہ تمہیں کس طرح سسرال پہنچ کر اپنا سکہ جمانا ہے۔ ایک مثل مشہور ہے کہ شادی کے لیے لڑکی تلاش کرتے وقت اس کی ماں کو دیکھو اور پرکھو، کیوں کہ ایک بیٹی کی پرورش میں اس کی ماں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔

اگر ماں سلجھی ہوئی اور سمجھ دار ہوگی، تو یقینا اس نے اپنی بیٹی کی تربیت بھی احسن انداز سے کی ہوگی اور وہ گھریلو معاملات کو سمجھ داری سے چلائے گی۔ اکثر مائیں بیٹی کو رخصت کرتے ہی اپنے داماد پر یہ جتانے لگتی ہیں کہ ’’میری بچی بہت کمزور دل کی ہے یا میری بیٹی بہت نازوں میں پلی ہے، اسے تکلیف مت دینا۔ وغیرہ بار بار اس طرح کی باتوں سے داماد چڑ جاتے ہیں، جب کہ دوسری جانب لڑکی بھی اپنی ماں کی شہ پر شوہر کے سامنے نخرے دکھانا شروع کر دیتی ہے، جس کی بنا پر دامادوں کو اپنی ساسوں سے پر خاش ہو جاتی ہے۔

اکثر لڑکیوںکی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی سسرال اور شوہر کی باتیں  اپنی ماں کو ضرور بتاتی ہے۔ روزانہ شام کو یا صبح اٹھتے ہی پہلا کام امی کو فون کر کے تمام رپورٹ دینا ہوتی ہے اور پھر اسی کی روشنی میں ’’ہدایات‘‘ لینا ہوتی ہیں۔ شادی کے اوائل کے دنوں میں یہ روش انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ بہت سے گھرانے صرف اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ مائیں بیٹی کو شوہر کے دل میں راج کرنے اور سسرال میں اس کی حکمرانی قائم کرنے کی خواہش میں بیٹی کی زندگی ہی برباد کر دیتی ہیں اور پھر پچھتاتی ہیں۔

ایسی خواتین بھی موجود ہیں، جو اپنے اور داماد کے مابین اس رشتے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انتہائی سمجھ داری سے اسے نبھانے کی کوشش کرتی ہیں، مگر بسا اوقات ہم ایسی صورت حال بھی دیکھتے ہیں کہ ساس تو داماد سے ہر طرح سے لحاظ و مروت برت رہی ہے، مگر داماد خواہ مخواہ اپنی ساس کو ’’آخر، میں داماد ہوں‘‘ والا روپ دکھا رہے ہیں۔ بعض مرد حضرات جن کی ساسیں سادہ لوح اور نرم خو ہوتی ہیں۔ وہ ان سے اپنے داماد ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ساس کی طرف سے داماد کی آؤ بھگت میں کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے، تو وہ بہت زیادہ برا مان جاتے ہیں۔ بہت سے داماد بیویوں کی اچھی خاصی کلاس لینے کے بعد وہ اپنی ساس کو بھی دو چار طنزیہ باتیں سنا دیتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال بیویوں کے لیے بہت کٹھن اور جاں گسل ہوتی ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے شوہر کی زبان سے اپنی ماں کی برائیاں اور کوتاہیاں سننے پر مجبور ہوتی ہیں اور دوسری جانب اپنی ماں کی غلطی کی سزا بھی انہیں ہی بھگتنی پڑتی ہے۔

بعض شوہر حضرات یہ بھی کرتے ہیں کہ اگر ان کو اپنی بیوی کی کوئی بات بری لگے یا پھر کسی بات پر جھگڑا ہو جائے، تو باقاعدہ اپنی ساس کو گھر بلاتے ہیں اور پھر ان کی بیٹی کی شکایتیں کرتے ہیں۔ مجبور اور بے بس مائیں اپنی بیٹی کے گھر اور اس کی خوشیوں کی بقا کی خاطر داماد کی خوشامد کرتی ہیں، ان سے معافیاں مانگتی ہیں۔ قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کو داماد کے سامنے ڈانٹتے ہوئے داماد کو انتہائی لجاجت سے یقین دلاتی ہیں کہ ’’بیٹا! آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘‘ نہ جانے کیوں ایسا کرتے ہوئے داماد یہ بات کیوں فراموش کر جاتے ہیں کہ ساس ان کی ماں کی جگہ ہے۔

وہ ساسیں جو اپنی بیٹیوں کے گھر اور اس کے سسرال کے معاملات میں دخل دے کر اپنے دامادوں سے باز پرس کر کے میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب کرتی ہیں، انہیں اس عمل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ عمل ان کا قطعاً درست نہیں ہے اور وہ داماد جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو جواز بنا کر اپنی ساسوں سے روٹھ جاتے ہیں یا ان سے بدزبانی کرتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر مناسب فعل ہے۔

داماد اور ساس دونوں فریقین کو اپنے رشتے میں بہتری لانے کے لیے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنی بیٹی کو حقیقی و دائمی خوشیاں دینا چاہتے ہیں، تو اس کے سسرال والوں کے معاملات میں مداخلت سے حتی الامکان گریز کریں۔ اگر وہ اپنے سسرال کے کسی فریق یا شوہر سے نالاں ہے، تو بہ جائے اپنی بچی کی طرف داری کرنے کے، اسے چھوٹی چھوٹی باتوں کو در گزر کرنے کی ہدایت دیں۔

کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان کبھی کوئی تیسرا فریق نہ بولے کیوں کہ اس طرح دونوں کا تعلق خراب ہوتا ہے لڑکے اور لڑکی دونوں کی مائیں معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ سیانے کہتے ہیں کہ بیٹی کے گھر میں اپنی زبان بند رکھو، کیوں  کہ اس عمل سے تلخیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں لڑکی پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سمجھ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اپنے گھر اور شوہر کی ہر بات اپنی ماں کو نہ بتائے اور شوہر کے سامنے ہر وقت میری ماں، میرے میکے کی تکرار نہ کرے۔ ایسا کرنے سے شوہر حضرات کو اپنے سسرال یا  ساس سے چڑ ہونے لگتی ہے۔

دوسری طرف دامادوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنی بیوی کے معاملات میں ساس کو  شامل مت کریں۔ یہ درست ہے کہ وہ ان کی بیٹی ہے، مگر اب آپ کی شریک حیات بھی ہے۔ اگر آپ کو اپنی بیوی سے شکایات ہیں، تو اپنی ساس کو بیچ میں لانا درست نہیں، کوشش کرنی چاہیے کہ باہمی طور پر معاملات حل کیے جائیں۔

البتہ اگر کسی معاملے میں اپنی ساس کو شامل کرنا بھی پڑے ، تو بہ صد احترام ان سے مخاطب ہوں اور یہ خیال رکھیں کہ ساس آپ کی ماں کی جگہ ہے، جب کہ بعض مرد حضرات ایسا بھی کرتے ہیں کہ ساس کے سامنے اپنی ماں کو فراموش کر کے اپنی ساس کے ہی بیٹے بن جاتے ہیں۔ ساسوں کو چاہیے کہ وہ بیٹی کی ساس کے رتبے پر بھی فرق نہ آنے دیں، کیوں کہ دونوں انتہائیں ہی درست نہیں۔ ہر سمت توازن اور میانہ روی ضروری ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔