تھر کی بھوک مزید 9 بچے نگل گئی

ایڈیٹوریل  جمعرات 18 دسمبر 2014
سول اسپتال مٹھی میں حاملہ خواتین کو ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بعد مچھر دانی فراہم کرنے کی شرط نے خواتین کو مشکلات میں ڈال دیا ہے،
فوٹو: فائل

سول اسپتال مٹھی میں حاملہ خواتین کو ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بعد مچھر دانی فراہم کرنے کی شرط نے خواتین کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، فوٹو: فائل

قحط زدہ صحرائے تھر میں بھوک کے عفریت نے مزید 9 بچوں کی زندگی نگل لی، جس کے بعد صرف 16 روز میں ہلاکتوں کی تعداد 71 جب کہ اس سال مجموعی طور پر 581 افراد جاں بحق ہوگئے۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث چنگیزوں کے خلاف تو یقیناً موثر اقدامات کیے جائیں گے لیکن ہر چند سال بعد صحرائے تھر میں حکومتی لاپرواہی اور غفلت کے باعث پھیلنے والے قحط کا سدباب کون کرے گا؟

تھر میں بھوک کے ہاتھوں مرجھا جانے والے معصوم بچوں کی ہلاکت کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے گی؟ یہاں اطلاعات ہیں کہ سول اسپتال مٹھی میں مزید 65 بچے زیر علاج ہیں جب کہ قحط کے باعث بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور سردی کی شدت میں اضافے کے باعث سندھ حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو بھیجے گئے کمبل اور کھجوریں بھی این جی اوز کی نذر ہوگئیں، جن کی تقسیم سست روی کا شکار ہے۔گندم کی تقسیم کا پانچواں مرحلہ ایک ماہ بعد بھی شروع نہ کیا جا سکا، جس کے باعث مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

سول اسپتال مٹھی میں حاملہ خواتین کو ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بعد مچھر دانی فراہم کرنے کی شرط نے خواتین کو مشکلات میں ڈال دیا ہے ۔ خواتین ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے پریشان ہیں، گھنٹوں لائن میں کھڑا رہنا پڑتا ہے ۔دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ نے تھرپارکر میں ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔

درخواست گزار نے موقف اختیارکیا تھا کہ عدالت میں وزیراعلیٰ کی جانب سے تشکیل دیے گئے تھر کمیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے، ایسی صورت حال میں کمیشن کا قیام عدالتی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ صائب ہے لیکن تھر کی صورتحال فوری ایکشن کی متقاضی ہے، صرف بیانات اور الزامات سے وقت کو ٹالنے سے کام نہیں چلے گا، صحرائے تھر کے باسیوں کے درد کا درماں ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔