(پاکستان ایک نظر میں) - آخر کار دسمبر پھر آگیا

سید احسن وارثی  ہفتہ 27 دسمبر 2014
بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے غم میں جس طرح سے عام شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا گیا کیا کوئی ان کا غم مناتا ہے؟ ۔ فوٹو اے ایف پی

بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے غم میں جس طرح سے عام شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا گیا کیا کوئی ان کا غم مناتا ہے؟ ۔ فوٹو اے ایف پی

آخر کار یہ دسمبر پھر آگیا۔ دسمبر جو کہ ماضی کی بہت سی تلخ یادوں سے بھرا پڑا ہے، جیسا کہ آج سے 7 سال قبل دسمبر کی 27 تاریخ کو پاکستان کی بڑی نامور سیاستدان بے نظیر بھٹو صاحبہ کو دہشتگردوں نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کردیا تھا ۔ اسی یاد میں  پاکستان پیپلزپارٹی ہر سال بے نظیر بھٹو صاحبہ کی برسی 27 دسمبر کو  عقیدت و احترام کی سے مناتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ان کی  شہادت کے بعد  گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ان کا مقبرا تعمیرِ کروایا جہاں انہیں دفنایا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے جیالے بے نظیر بھٹو شہید کی برسی  پر ہر سال گڑھی خدا بخش جا کر پھول چڑھاتےہیں اور شمعیں روشن کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک  نہیں کہ یہ قومی سانحہ تھا اور بے نظیر بھٹو ایک قومی لیڈر تھیں۔ مگر جس نظر سے میں نے  27 دسمبر 2007 کے سانحے کو دیکھا وہ بہت مختلف  اور تلخ ہے، کیونکہ بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے بعد 3 دن تک جو سانحات ہوئے ان کا نہ کوئی ذکر کرتا ہے، نہ کسی نے مقبرا بنایا اور نہ ان سانحات  کے  متاثرین کی کوئی داد رسی کی گئی۔ 27 ، 28  اور 29 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو صاحبہ  کی شہادت کے غم میں جس طرح سے کراچی اور اندرون سندھ  میں عام شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا گیا کیا کوئی ان کا غم مناتا ہے؟

یہ کونسا سوگ تھا ؟ جس میں مسلح دہشت گردوں نے 3 دن تک شہر کو یرغمال بنا کر رکھا، یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔   27 دسمبر کے سانحے کے بعد 12 ہزار گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا، پیٹرول پمپس کو آگ لگائی گئیں، ملازمت پیشہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی، بینکوں کو لوٹا گیا، فیکٹریاں لوٹ کر آگ لگا دی گئیں، یہاں تک کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکنان کو بھی زندہ جلا دیا گیا۔ دہشت گرد مسلسل 3 روز تک کھلے عام شہریوں کے جان و مال سے کھیلتے رہے مگر انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔

تاہم  پولیس نے کارروئی کرتے ہوئے لیاری کے مختلف علاقوں سے لوٹا گیا مال برآمد کرلیا، ساتھ ہی سانحہ 27 دسمبر کے بعد پیپلزپارٹی کے درجنوں افراد کے خلاف قتل،  اقدام  قتل، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے مقدمات بھی درج کئے گئے، لیکن ان سب کے باوجود مجبور عوام کو آج تک انصاف نہ مل سکا، بلکہ الٹا فروری 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی  کامیابی کے بعد سندھ کے وزیراعلی سید قائم علی شاہ صاحب نے سب سے پہلے ایک حکمنامے کے زریعے پیپلزپارٹی کے تمام  کارکنان کے خلاف یہ مقدمات ختم کردیئے۔

اس سانحے کو 7 سال کا عرصہ گزر گیا ہے، لیکن آج تک نہ بےنظیر بھٹو شہید کے قاتل پکڑے گئے اور نہ کراچی و سندھ کی عوام خاص طور سے تاجروں کے نقصان کا ازالہ کیا گیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سانحے 27  دسمبر کو صرف بےنظیر ہی شہید نہیں ہوئیں بلکہ اس سانحے کے بعد کتنی ہی عورتوں کی عزتیں تار تار ہوگئیں، ہزاروں کا روزگار چھن  گیا،  تاجر برباد ہوگئے اور نہ جانے کتنے  لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ ان تمام سانحات کے باوجود 27 دسمبر کے دن کو صرف محترمہ شہید بےنظیر صاحبہ سے منسوب کرنا عوام اور تاجروں برادران کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ 27 دسمبر بےنظیر صاحبہ کے قتل کا ہی دن نہیں بلکہ  پاکستان کے معاشی قتل عام کا بھی دن ہے۔ پیپلزپارٹی نے 6 سالہ حکمرانی میں ایک بار بھی ان لوگوں  کی مالی معاونت نہیں کی جو ان کی چیر پرسن کے قتل کے بعد  دہشتگردوں کی مختلف دہشتگردی کا نشانہ بنے۔

اگر اب بھی ہم ان جاگیرداروں اور  وڈیروں کے چنگل سے نہ نکلے تو مستقبل میں یوں ہی عام عوام کا  معاشی قتل عام جاری رہے گا۔ ہمیں ان  نام نہاد حکمرانوں کے ناپاک عزائم کو سمجھنا ہوگا، ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کو عام شہریوں کا دکھ،  درد ، تکلیف یاد ہو کہ نہ یاد ہو  مگر ہمیں  سب یاد  ہے۔ لیکن اب ہماری قوم کو آگے بڑھنا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا ہے، لہذا ہمیں ان جاگیردارنہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا اور ایک پڑھے لکھے طبقے کو آگے لانا ہوگا۔  اگر ہم ماضی کی طرح غلط لوگوں کو منتخب کرتے  رہے تو کبھی آگے نہیں بڑسکیں گے ۔ ان حکمرانوں نے ہمیشہ عوام کے جان و مال سے کھیلا ہے اگر اب بھی ہم نے ان کو ریجیکٹ نہیں کیا گیا  تو ہماری حالت بدلنے کے لئے کوئی  فرشتہ نہیں آنے والا۔

خدا نے بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ خود جسے احساس اپنی حالت بدلنے کا

ہمارے حکمرانوں کو عوام کی آہ سے ڈرنا چاہیئے، نہ جانے کب کس غریب کی آہ ان  تک پہنچ جائے اور لمحہ بھر میں یہ تباہ و برباد ہوں جائیں۔

ہمیں یاد سے ذرا ذرا

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔