رکشے والا

قیصر اعوان  بدھ 21 جنوری 2015
وہ جو چھ دن پہلے تک اس بات کی خوشیاں منا رہا تھا کہ پٹرول مزید سستا ہو گیا ہے، کہاں جانتا تھا کہ چند روز بعد ہی نوبت فاقوں تک پہنچ جائے گی۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

وہ جو چھ دن پہلے تک اس بات کی خوشیاں منا رہا تھا کہ پٹرول مزید سستا ہو گیا ہے، کہاں جانتا تھا کہ چند روز بعد ہی نوبت فاقوں تک پہنچ جائے گی۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

رکشہ ڈرائیورارشد کو پٹرول کے لیے خوار ہوتے آج ساتواں روز تھا۔ بیچارا غریب روزانہ صرف اس اُمید پر رکشہ کرائے پر لے کر سڑک پر آجاتا کہ شاید آج اُسے رکشہ کے لیے کچھ پٹرول مل جائے اور وہ اپنے بوڑھے ماں باپ اوربیوی بچوں کے کھانے پینے کے لیے کچھ پیسے کماسکے، مگر سارے دن کی مشقت کے بعد وہ صرف اتنے پیسے ہی کما پاتاکہ جس سے بمشکل رکشہ کا کرایہ ہی ادا کیا جا سکتا تھا۔

رکشہ ہی اُس کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا جو اُس کا اپنا نہ تھا اور اُسے رکشہ کے مالک کو تین سوروپے یومیہ کے حساب سے کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا، اُسے یہ پیسے ہر حال میں ادا کرنا ہوتے تھے خواہ اُدھار ہی کیوں نہ پکڑنا پڑے ورنہ ارشد کی آمدنی کا یہ واحد ذریعہ اُس سے چھن بھی سکتا تھا اور یہ نقصان برداشت کرنا ارشد کے بس کی بات نہیں تھی۔

گھر کی بنیادی ضروریات ، بچوں کی تعلیم ، اور بوڑھے والدین کی علاج معالجے کے اخراجات ہی بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے تو وہ غریب بُرے وقت کے لیے پیسے کہاں سے بچاتا۔ وہ جو چھ دن پہلے تک اس بات کی خوشیاں منا رہا تھا کہ پٹرول مزید سستا ہو گیا ہے، کہاں جانتا تھا کہ چند روز بعد ہی نوبت فاقوں تک پہنچ جائے گی ۔

رات کے دس بج چکے تھے اور وہ صبح گیارہ بجے سے ایک پٹرول پمپ کے سامنے لگی لمبی قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجی اورارشد نے مایوسی اور بیزاری کے عالم میں موبائل کی سکرین کی طرف دیکھا۔

’’جی بھائی! بس میری باری آنے ہی والی ہے۔۔۔ چند ہی گاڑیاں رہ گئی ہیں۔۔۔ میں بس تھوڑی ہی دیر میں آپ کا رکشہ لے کر پہنچ جاؤں گا۔‘‘ ارشد نے بیچارگی سے کہا۔
’’تو مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہو، میں اب تمھارے انتظار میں پوری رات تو نہیں گزار سکتا ناں، فوراً سے میرا رکشہ اور آج کا کرایہ لے کر پہنچو، میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘ رکشے کا مالک ارشد کی مجبوری جاننے کے باوجود غصّے میں بول رہا تھا۔

’’آج پورے دن میں صرف چار سو ہی کمائے ہیں۔۔۔ گھر میں بھی پیسوں کی کافی ضرورت ہے ۔۔۔ اگر آپ کرایہ کل لے لیں تو میں رکشہ میں تھوڑا زیادہ پٹرول ڈلوا لوں گا اور آپ کو کل دو دن کا کرایہ ایک ساتھ دے دوں گا‘‘۔ ارشد کے لہجے میں التجا تھی۔

’’میں نے ان سب کا ٹھیکہ نہیں لیا، مجھے ذلیل کرنا ہے تو بتا دے، میں رکشہ کسی اور کو دے دیتا ہوں‘‘۔

’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ ارشد کو اس جواب کی توقع ہر گز نہیں تھی، وہ تو ہمیشہ سے ہی اُس کا کرایہ وقت پر دیتا آیا تھا ۔

’’تیرا جو بھی مطلب ہے، دیکھ مجھے صبح سات بجے ہرحال میں میرا کرایہ چاہیے ورنہ کل تجھے رکشہ نہیں ملے گا، اس سے زیادہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

’’بالکل بھائی بالکل، بہت شکریہ آپ ۔۔۔‘‘ اور دوسری طرف سے فون کٹ گیا۔

قریب تھا کہ ارشد رو پڑتا، اُسے پٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے بارہ گھنٹے ہونے کو تھے، وہ بے بسی سے کبھی اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا تو کبھی اپنے سے آگے کھڑی گاڑیوں کی طرف ، کچھ بھی تو اُس کے بس میں نہیں تھا۔ گھر میں بچوں نے تو شایدکچھ بچا کُھچاکھا ہی لیا ہو مگر ارشد نے توصبح گھر سے نکلتے وقت ناشتہ بھی صحیح طرح سے نہیں کیا تھا ، بھوک سے اُس کی جان نکلے جا رہی تھی مگر وہ کچھ کھانہیں سکتا تھا ۔ اور آخر کار ایک طویل انتظار کے بعد ارشد کی باری بھی آہی گئی۔

اعدادوشمار کے مطابق تو وہ رکشہ میں صرف 100روپے کا ہی پٹرول ڈلوا سکتاتھا کیونکہ اُسے ابھی تین سو روپے رکشہ کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا۔ مگر پھر اُس نے اس اُمید پر کہ شاید واپسی پر کوئی سواری ہی مل جائے، تین سو کا پٹرول ڈلوا لیا۔

اب ارشدسواری کی تلاش میں ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے بالکل ہلکی رفتار میں رکشہ چلا ئے جارہا تھا، کچھ ہی لمحوں بعد ایک بزرگ نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کو کہا اور اُسے لگا جیسے اُس کی دُعا قبول ہو گئی ہو،

’’بیٹا، لاری اڈے جاؤ گے؟‘‘ بزرگ نے نہایت ہی شائستگی سے پوچھا۔

’’لے جائیں گے، باباجی۔۔۔‘‘ ابھی ارشد نے اپنا فقرہ مکمل بھی نہیں کیا تھاکہ ایک پولیس والا بغیر کچھ بولے رکشہ میں آکر بیٹھ گیا ۔

’’نئی چونگی چلو، اورتھوڑا تیز چلانا،پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے‘‘۔ پولیس والے نے پان چباتے ہوئے حکم دیا۔

ارشد نے معذرت بھری نگاہوں سے بزرگ کی طرف دیکھا ، وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا ، میں کوئی اور رکشہ دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ بزرگ کے لہجے میں کوئی شکایت نہیں تھی، اور ارشد اپنی زبردستی کی سواری لیے نئی چونگی کی طرف روانہ ہو گیا۔

نئی چونگی یہاں سے کافی دور تھی، مگر ارشد کاگھر وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا اس لیے ارشدکو بالکل بھی پریشانی نہیں تھی۔ خدا خدا کر کے پٹرول ملا تھا اور پھر ساتھ ہی سواری بھی مل گئی ، اُسے اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔

’’دو سو روپے تو دے ہی دے گا، ویسے تو اتنی رات گئے اڑھائی سو بھی زیادہ نہیں ہیں ۔‘‘ ارشد نے دل ہی دل میں سوچا، پوچھنے کی تواُس میں بالکل بھی ہمت نہیں تھی۔ ’’ رکشہ کا کرایہ بھی ابھی دے دوں گا اور صبح کے لیے کچھ پٹرول بھی بچ جائے گا‘‘۔

ابھی وہ ان سوچوں میں ہی تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی، اب کی بار فون گھر سے تھا۔

’’ہاں ! میں آتے ہوئے کھانے کو بھی کچھ لے آؤں گا، تم بچوں سے کہنا کہ وہ سوئیں مت۔‘‘ ارشد اپنی بیوی سے مخاطب تھا۔ ’’ہاں ہاں، مجھے یاد ہے، امی کی دوائیاں بھی ضرور لے آؤں گا، پرچی میرے پاس ہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اُس نے فون کاٹ دیا ۔

’’رکشہ کا کرایہ اب صبح ہی دوں گا، امّی کی دوائی بھی تو بہت ضروری ہے۔‘‘ اُس نے ایک لمحے میں فیصلہ کر لیا۔ ’’بیٹا، اب میری کھانسی ٹھیک ہو گئی ہے، مزید دوائی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اُسے امّی کی آج صبح کہی ہوئی بات یاد آگئی جو اُنہوں نے کھانسی روکتے ہوئے کہی تھی۔ ماں تھی ناں، جانتی تھی کہ بیٹا کس کرب سے گزر رہا ہے۔

’’لیں صاحب جی، آپ کا اسٹاپ آگیا، زیادہ دیر تو نہیں ہوئی ناں؟‘‘ ارشد نے رکشہ روکتے ہوئے کہا۔

پولیس والا جس انداز میں رکشے میں سوار ہوا تھا اُسی انداز میں اُتر کر بغیر کرایہ دیے تیزی سے ایک طرف کو چل پڑا۔

’’صاحب جی کرایہ؟ ‘‘ ارشد نے پیچھے سے آواز دی۔

پولیس والے نے حیرت سے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔

’’صاحب جی۔۔۔وہ۔۔۔ کرایہ دینا بھول گئے آپ‘‘۔

’’لگتا ہے نیا نیا رکشہ چلانا شروع کیا ہے، ابھی تیرے سے رکشہ کے کاغذ ات مانگ لیے تو ادھر ہی پاؤں پکڑتا پھرے گا تُومیرے۔‘‘ ارشد حیرت سے اُس پولیس والے کا منہ دیکھ رہا تھا۔ ’’ابھی تو جاتا ہے کہ بند کروں تیرا رکشہ؟‘‘ پولیس والے کے لہجے میں فرعونیت تھی۔ ارشدنے وہاں سے چلے جانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔
اُس کا دل ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ اب اُس کے پاس صرف سو روپے تھے، کرایہ وہ دے نہیں سکتا تھا، ماں کی دوائی بچوں کے کھانے سے زیادہ ضروری تھی مگر اُس کے لیے بھی یہ پیسے کافی نہیں تھے۔ اُس کے دماغ میں ڈاکٹر کے الفاظ گونج رہے تھے،

’’کھانسی کافی پُرانی ہوچکی ہے، اگر یہ دوائی باقاعدگی سے نہ دی گئی تو ٹی بی ہونے کا خدشہ ہے، دوائی تھوڑی مہنگی ہے مگرکوتاہی بالکل مت کرنا۔‘‘
’’چلو، ایک دن کی دوائی تو آہی جائے گی۔‘‘ اُس نے یہ سوچتے ہوئے رکشہ کا رُخ میڈیکل اسٹور کی طرف موڑ دیا۔

رکشہ کا کرایہ بھی سورج نکلتے ہی ادا کرنا تھا، بچوں کو بھی کھانے کے انتظار میں جاگتے رہنے کا وہ خود کہہ چُکا تھا، وہ دکاندار جو اُسے بڑے فخر سے یہ کہہ کر اُدھار دیا کرتا تھا کہ ’’ارشد بھائی! آپ میرے سب سے اچھے گاہک ہو جس نے اپنی کم آمدنی کے باوجود مجھے کبھی پیسوں کے لیے خوار نہیں کیا،‘‘ صرف سات دنوں میں نظریں پھیر چکا تھا ، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ اس سب کے پیچھے ارشد بیچارے کا کوئی قصور نہیں ہے۔

وہ شکست خوردہ قدم اُٹھاتے ہوئے میڈیکل سٹور کی طرف بڑھ رہا تھاکہ اچانک اُسے ایک لیبارٹری کے باہر ’’بلڈ بنک‘‘ کا بورڈ لگا نظر آیا، اور اُسے چند دن پہلے اپنے دوست کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد آ گئی۔

’’یہ بلڈ بنک خون بیچتے اور خریدتے بھی ہیں۔‘‘ ارشد کا دوست کہہ رہا تھا۔

’’ کوئی نشئی ہی بیچتا ہو گا انہیں اپنا خون۔‘‘ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ کوئی عقل رکھنے والا شخص ایسا بھی کر سکتا ہے۔
’’جو نشہ نہیں کرتا اُس کے خون کے زیادہ پیسے ملتے ہیں، لوگ تو مجبوری میں اپنا گردہ بیچ دیتے ہیں اور تو خون کی بات کر رہا ہے۔‘‘ اور ارشد نے تو کبھی ایک سگریٹ کا کش بھی نہیں لگایا تھا۔

نقا ہت کے باوجودایک عجب سی مسکراہٹ ارشد کے چہرے پر نمایاں تھی، رکشہ چلانے کے لیے اُسے پٹرول تو نہیں مل رہا تھا مگر گھر چلانے کے لیے اُسے یہ وقتی حل مل گیا تھا، اب اُس کی جیب میں اتنے پیسے تھے کہ وہ ماں کی دوائی بھی لے سکے اورسب گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست بھی کر سکے، رکشہ کا کرایہ تو اُس نے پہلے ہی الگ کر دیا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔