کیا معرکہ حق و باطل قریب ہے

اوریا مقبول جان  اتوار 25 جنوری 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

ملکہ سباء کی سرزمین اور عرب دنیا کا غریب ترین ملک ’’یمن‘‘ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ عاشقِ رسولﷺ حضرت اویس قرنی کا مسکن اور وہ خطہ جس کے بارے میں سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا ’’بہترین ایمان یمن میں ملے گا اور شاندار حکمت بھی وہاں کی‘‘۔ احادیث کی تمام کتب میں جہاں کہیں قیامت کے قرب میں دور فتن کا تذکرہ ہے وہاں ہادی برحق ﷺ نے دو خطوں کو بہت اہمیت دی ہے، ایک شام اور دوسرا یمن۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارے نجد میں بھی، آپ نے فرمایا، اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی، راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے تیسری بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہاں زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔ (بخاری، مسند احمد)۔

شام تو گزشتہ تین سالوں سے اس جنگ میں داخل ہو چکا ہے جس کا تذکرہ کتب احادیث میں ملتا ہے اور اب یمن نے انگڑائی لے لی ہے۔ ایک حیران کن ترتیب زمانی ہے جو ہو بہو ویسی ہی ظہور پذیر ہوتی جا رہی ہے جیسی کتب احادیث میں بتائی گئی ہے۔ سب سے پہلے عراق کی جنگ ہے اور اس کے نتائج سے دوسری جنگیں نکل رہی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بنو قنطورا یعنی اہل مغرب تمہیں عراق سے نکال دیں گے، میں نے پوچھا ہم دوبارہ واپس آ سکیں گے، حضرت عبداللہ نے فرمایا، آپ ایسا چاہتے ہیں، میں نے کہا ضرور، انھوں نے فرمایا ہاں عراق واپس لوٹ آئیں گے اور ان کے لیے خوشحال اور آسودگی کی زندگی ہوگی (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ اسی جنگ کے بارے میں ایک اور روایت، آپ ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے، لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہرسو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔ ہر بچنے والا سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں (مسلم)۔

عراق پر جنگ جس طرح مسلط کی گئی اور جس طرح تمام اہل مغرب نے مل کر وہاں کی ہر بستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انھیں ہجرت پر مجبور کیا، اس کی کہانی بار بار بیان ہو چکی۔ اس کے بعد کی ترتیب کے مطابق، مصر میں انتشار اور خرابی کا ذکر ہے اور ٹھیک اسی ترتیب سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ حضرت وہب ابن منبہ فرماتے ہیں کہ جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے (السنن الواردہ فی الفتن)۔ حضرت اسحٰق ابن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہو جائیں تو اہل شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں (السنن الواردۃ فی الفتن)۔

مصر ہی عرب بہار میں سب سے پہلے متحرک ہونے والے ملکوں میں سے تھا۔ وہاں سے حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ التحریر اسکوائر کے اجتماعات کے بعد ہوا۔ پیلے جھنڈے وجود میں آئے جن پر چار انگلیوں کے نشان تھے، اخوان المسلمون کی حکومت بنی اور پھر دوبارہ وہاں جنرل سیسی کے ذریعے آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہی دور تھا جب شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے خلاف بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتل عام شروع کیا اور طیاروں سے بمباری شروع کی جس سے اس وقت تک اندازاً چار لاکھ کے قریب لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔

کس قدر اہم ہدایت دی گئی تھی اس حدیث میں کہ شام کے لوگوں کو زمین دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں۔ شام آخری جنگ میں جسے رسول اللہ ﷺ نے ملحمۃ الکبریٰ کہا ہے مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر ہو گا اور اسی جگہ مغرب سے جنگ برپا ہو گی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی نصرت یمن سے کی جائے گی۔ حضرت کعب سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا ،،جب رومی جنگ عظیم (ملاحم) میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دو لشکروں کے ذریعے اہل شام کی مدد کرے گا۔

ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی ہزار ،اہل یمن کے ذریعے، جو اپنی بند تلواریں لٹکائے ہوئے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں۔ ہم اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے طاعون، ہر قسم کی تکلیف اور تھکاوٹ اٹھا لیں گے( الفتن، نعیم بن حماد)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر لڑی جائے گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے قریب ہیں۔

رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے ’’اہل روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ ان کی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائو جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہو، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے، مسلمان کہیں گے نہیں اللہ کی قسم ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔

اس پر تم ان سے جنگ کرو گے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کر دیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کرینگے (مسلم، ابن حبان) سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کے آثار کس قدر واضح نظر آرہے ہیں۔ پورا مغرب شام میں جنگ کرنے کے لیے متحد ہورہا ہے اور بہانہ وہی لگایا جارہا ہے کہ ہمارے یورپ کے لوگ قید کرکے لائے گئے ہیں۔ ہم ان لوگوں سے لڑیں گے، لیکن اگر جنگ شروع ہوگئی تو پھر اہل مغرب کے مقابلے میں سب مسلمان متحد ہوجائیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ میں انتظار میں تھا کہ کب یمن میں امریکا کی قائم کردہ پٹھو حکومت ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آخری جنگ میں شام کی نصرت میں یمن سے بھی لوگ جائیں گے اور خراسان کے سیاہ جھنڈوں والے تو پہلے ہی افغانستان میں امریکا کو شکست فاش دے چکے۔ اب تو بس اتحادی فوجیوں کی جانب سے جنگ کا نقارہ  بجنے کی دیر ہے۔ پھر دیکھیں امت کس طرح ایک جگہ اکٹھی ہوگی اور اس کا ذکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت سے کردیا ہے۔

یمن وہ سرزمین ہے جہاں سیدنا علی بن حسینؓ جنھیں امام زین العابدین کہا جاتا ہے ان کے فرزند ارجمند حضرت زید بن علیؒ کے ماننے والے زیدیہ فرقے کے افراد مقیم ہیں۔ حضرت زید بن علیؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اموی حکمران کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ وہ کوفہ پہنچے تو کوفہ والوں نے ان کے ساتھ وہی کیا جو ان کے دادا سیدنا امام حسینؓ اور مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ کیا تھا۔ چالیس ہزار افراد نے ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی بیعت کی، لیکن جب وقت آیا تو وہ سب اکٹھے ہوکر آئے اور پوچھا، تم کس چیز کی دعوت دیتے ہو، فرمایا اللہ کے رسول کی سنت کو زندہ کیا جائے۔

اس پر ان لوگوں نے سوال اٹھایا ابو بکرؓ اور عمرؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں انھوں نے زندگی گزاری اور میں نے اپنے گھر والوں سے ان کا ذکر ہمیشہ خیر اور بھلائی سے سنا۔ یہ سننا تھا کہ وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ جب زید بن علیؒ جہاد کے لیے علم بلند کررہے تھے تو امام ابو حنیفہؒ نے ان کے بارے میں کہا تھا ،،زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے‘‘۔

امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول کس قدر درست ثابت ہوا کہ زید بن علیؒ جب خروج کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ بھی تین سو تیرہ افراد تھے۔ وہی تعداد جتنی بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھی۔ حضرت زید بن علی کے ماننے والے زیدیہ کہلاتے ہیں۔ وہ اپنے عقائد کو حضرت زید کے اس خطبے سے اخذ کرتے ہیں۔‘‘میں ان لوگوں سے بری ہوں جو اللہ کو مخلوق جیسی ہستی سمجھتے ہیں اور ان جبریوں سے بھی بری جو اپنی ساری بداعمالیوں کی گٹھری اللہ پر لاد کر کہتے ہیں کہ سب اللہ کرتا اور کراتا ہے اور ان لوگوں سے بھی بری جنہوں نے بدکاروں کے دلوں میں یہ امید پیدا کردی ہے کہ خدا انھیں یوں ہی چھوڑ دے گا اور میں ان دین باختوں سے بھی بری جو حضرت علیؓ کو دین سے خارج اور ان رافضیوں سے بھی جدا جو ابوبکرؓ اور عمرؓ کی تکفیر کرتے ہیں۔‘‘

یہی ہے ایک امت کا عقیدہ، اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہترین ایمان یمن میں ملے گا۔‘‘ یہ لوگ اس طوق غلامی کو اتار پھینکیں گے جو امریکا اور اس کے حواریوں نے انھیں پہنایا تھا۔ حالات کی ترتیب تو ویسی ہی ہے جیسی احادیث میں رقم ہے لیکن دیکھنا صرف یہ ہے کہ کب مغرب یلغار کرتا ہے اور پھر کب یہ امت ایک ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔