آئی ایم ناٹ اے ٹیرراسٹ

شہباز علی خان  منگل 27 جنوری 2015
بہتر ہے میں اب تنور سے اکٹھی روٹیاں لینا بند کر دوں ورنہ وہ میری ضمانت کرانے نہیں آئے گا۔ فوٹو فائل

بہتر ہے میں اب تنور سے اکٹھی روٹیاں لینا بند کر دوں ورنہ وہ میری ضمانت کرانے نہیں آئے گا۔ فوٹو فائل

آج جب عامر ندیم ایڈووکیٹ کا فون آیا تو اس نے سب سے پہلے یہ کہہ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اور کبوتر اڑا دئیے کہ بہتر ہے میں اب تنور سے اکٹھی روٹیاں لینا بند کردوں ورنہ وہ میری ضمانت کرانے نہیں آئے گا۔ میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا بھلا تندور اور روٹیوں سے میرا جرم کہاں اور کیا بنتا ہے؟ اس نے میری بے خبری پر ایک اور لات رسید کی کہ پہلے اخبار پڑھو اور پھر وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔

دو پروفیشن ایسے ہیں جن پر میں یقین رکھتا بھی ہوں اور نہیں۔ ایک تو ڈاکٹر اور دوسرا وکیل۔ ان میں سے اگر ایک کی ناکامی جیل کی ہوا کھلا سکتی ہے تودوسرے کی ناکامی کے بعد بندہ شکوہ و شکایت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ظاہر سی بات ہے ساری خزائیں اور بہاریں تو زندگی کے ساتھ ہوتی ہیں جب انسان زمین کے چھ فٹ نیچے ہوگا تا کیا آکسیجن اور کیا شکوے۔

ہاں تو بات شروع ہوئی تھی تندور سے اور میری ضمانت سے، میں نے اخبار کو باریک بینی سے پڑھنا شروع کیا مگر سارے صفحات پر یا تو سیاستدانوں کے بلند و بالا دعوے چھپے ہوئے تھے یا پھر رعایا میں پھیلی ہوئی قتل و غارت کی ہولناکیاں۔ آخرکھینچ تان کر وہ خبر بھی مل ہی گئی جسے پڑھنے کے بعد میں ایک ایسی کیفیت میں دھنس گیا کہ جہاں میری اپنی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر ہنسا جائے یا پھر افسوس کا اظہار کیا جائے، پہلے آپ وہ خبر پڑھیں؛

’’ پولیس کی ہدایت پر ہوٹل مالک نے زائد روٹیاں خریدنے کے لئے آنے والے کو دہشت گرد سمجھ کر گرفتار کرلیا۔ محلہ کانجواں کے خان محمد کے قریبی عزیز کی منگنی تھی جس پر وہ مہمانوں کے لئے ایک تندور پر 80 روٹیاں لینے گیا تو ہوٹل کے مالک نے پولیس کو اطلاع کردی کہ ایک دہشت گرد زیادہ تعداد میں روٹیاں خریدنے آیا ہے، جس پر اسے حراست میں لے لیا گیا، بعد ازاں وجہ معلوم ہونے پر چھوڑ دیا گیا‘‘

ارے یہاں تو ہمارے گلی گلی محلے محلے میں تندور کی دکانیں پھیل چکی ہے، بلکہ اب تو جو لوگ روزانہ اپنے موبائل فون میں بیس روپے ایزی لوڈ کروانے کے عادی ہیں اگر کسی دن وہ ایک دم سے شیخ چلی بننے کے بجائے حاتم طائی کی سخاوت کا مقابلہ کرتے ہوئے بیس روپے کی بجائے تیس روپے کا ایزی لوڈ اپنے یا اپنے کسی قریبی دوست کے موبائل فون میں ڈلوانے کی کوشش کریں تو وہ بھی خان محمد کی طرح کسی تھانے میں مرغا بنے بانگیں دے رہے ہونگے اور صفائیاں بھی کہ ان سے یہ سنگین جرم انجانے میں مرتکب ہوا، ورنہ ان کی تو اتنی اوقات ہی نہیں تھی کہ ایک دم سے اتنی امارات کا مظاہرہ کرتے یعنی 20 روپے کی بجائے ایک دم 30 روپے کا ایزی لوڈ۔

اب جب سرکار نے تندور کی روٹی کو اکائی بنا کر قدم اس دشت میں رکھ ہی دئیے ہیں تو یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہوگا؟ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ جیسے دو دوست اگر پان شاپ پر جاتے ہیں اور وہاں جا کر دو کے بجائے چار کی فرمائش کریں،تو ایک گھنٹہ پولیس اسٹیشن میں گزارنے کے بعد شاید وہ عمر بھر کے لئے توبہ کرلیں گے۔ اگر میاں بیوی لنڈے بازار سے گرم کپڑے لینے جاتے ہیں، جن کے آٹھ دس بچے ہیں تو پھر کیا وہ سب بچوں کی قطار بنائے ریڑھی پر کھڑے ہونگے؟ اور ریڑھی والا بھی ایک رجسٹر تھامے اندراج کررہا ہوگا کہ فی بچہ ایک بنیان، دو جراب، ایک جرسی ایک پاجامہ۔ ادھر حساب کتاب میں فرق آیا اور ساتھ ہی سرکار کی نفری پورے لوازمات کے ساتھ سارے خاندان کو سکین کررہی ہوگی۔

ویسے میرا ایک مشورہ ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ شاہ رخ خان نے اپنی فلمی صنعت کے ہدایتکاروں اور تخلیق کاروں کیلئے ایک فلم بنائی تھی جس کاایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا؛

’’مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ اے ٹیرراسٹ‘‘

اسی طرح ہم عام عوام کی وزیرداخلہ سے گزارش ہے کہ اپنے بیان پر نظر کرم فرمائیں، اس ملک میں جابجا عام انسان بکھرے پڑے ہیں، بے شک اس جنگ کی حالت میں عوام آپ کے ساتھ ہیں لیکن یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ہرشخص دہشت گرد نہیں ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔