عالمی جنگ یا معرکۂ حق و باطل

اوریا مقبول جان  جمعرات 29 جنوری 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

چاروں جانب ایک افراتفری ہے، حالات میں ایک تیزی ہے، ایسے لگتا ہے دنیا پر حکمران طاقتیں جلداز جلد بہت سے کام کرنا چاہ رہی ہیں۔ اتنے محاذ تو پہلے کبھی نہ کھولے گئے تھے۔ دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ملک اس میں شامل ہوتے گئے اور جنگ کے شعلے پھیلتے گئے۔لیکن اس وقت تو ایسے لگتا ہے جیسے ہندؤوں کے دیوتا ہنومان کی طرح جس نے اپنی دم میں آگ باندھی تھی اور دم کو گھما کر راون کی ساری سلطنت لنکا کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔

ایسے حکمران کئی ہنومان ہیں جو اپنی دموں میں آگ باندھ کر انھیں لہرائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے اس دنیا کو آگ اور خون میں نہلانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ 2008 میں جب سودی معیشت کا بلبلہ پھٹا تو عالمی سطح پر ایک ایسا بحران آیا کہ بڑی بڑی معیشتیں اور عالمی طاقتیں چیخ اٹھیں۔ وہ وال اسٹریٹ جو کبھی حکومتوں کو خریدا کرتی تھی، اس نے امریکی حکومت سے اپنی زندگی کی بھیگ مانگ لی۔فرمائش کی گئی کہ لوگوں کے پیسوں سے سات سو ارب ڈالر اسے دے دیے جائیں تو وہ سنبھل سکتی ہے۔

بینکوں کی سود کمانے کی خواہیش دم توڑ گئیں اور شرح سود صفر تک جا پہنچی۔ ایسے میں زوال کھاتی معیشت اور افغانستان و عراق میں شکست کھاتی فوجی قوت نے Randکارپوریشن کو ایک ذمے داری سونپی۔ اسے صرف ایک سوال دیا گیا کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے۔ تجویز بھی صرف ایک ہی دی گئی، اور وہ یہ کہ ایک بہت بڑی عالمی جنگ ہی امریکی معیشت کو چار چاند لگا سکتی ہے۔ میدان ِ جنگ پہلے سے گرم ہے، بس ذرا اس کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

افغانستان اور عراق کے ساتھ جنگ کو دو ملکوں کے ساتھ جنگ بنا کر نہیں پیش کیا گیا تھا بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک عالی جنگ کہا گیا تھا۔اگرچہ جنگ کرنے والوں نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے ساتھ کبھی اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن اس جنگ میں قتل صرف اور صرف لاکھوں مسلمان ہی کیے گئے۔ رینڈ کارپورشن نے یہ مشورہ دیا کہ اس جنگ کو پھیلا دو۔ تین ملک ایسے ہیں جن کی معیشت مضبوط ہے، جنگوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ بھارت، چین اور روس۔ تینوں ممالک میں کروڑوں کے حساب سے مسلمان بستے ہیں۔

لیکن ان ملکوں کے ساتھ اس جنگ کولڑے گا کون؟۔ تجویز دی گئی کہ دو ملک ایسے ہیں، ایک پاکستان اور دوسرا افغانستان۔ ایک ملک میں عسکری اور انتظامی صلاحیت ہے اور دوسرے میں دیوانوں، فررزانوںاور جہادیوں کی کمی نہیں۔2010کے آغاز میں اس تجویز کو سرکاری پالیسی کا حصہ بنایا گیا اور پھر دو اعلان سامنے آئے، ایک یہ کہ امریکی اور اتحادی افغانستان سے چلے جائیں گے اور دوسرا یہ کہ اگلے دس سال امریکا اپنا سرمایہ اور وقت بحرہند اور بحرا الکایل کے ممالک میں صرف کرے گا جو فلپائن سے لے کر برما تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے پاکستان اب عالمی سفارت خانوں میں انڈوپاک ریجن کے طور پر نہیں جاناجاتا بلکہ افغان پاک ریجن ہو چکا ہے۔

اس ریجن یا علاقے میں ایسی حکومتوں کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے جو خطے کے تینوں ممالک میں پھیلے مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکیں اورایک نہ ختم ہونے والے جنگ شروع کریں جس سے روس، چین اور بھارت متاثر ہوں اور وہ اسلحہ اور دیگر سہولیات کے لیے سات سمندر پار امریکا کے محتاج ہو جائیں۔ ان ممالک میں لڑنے والے مسلمانوں کو بھی اسلحہ فراہم کرنے والے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے اسلحہ خریدیں اور یوں امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس رات دن ترقی کرنے لگے۔ جس سال یہ رپورٹ منظر عام پر آئی، دو ملکوں نے اس پر شدید احتجاج کیاتھا۔ ایک چین اور دوسرا فرانس لیکن میڈیا پر مخصوص قبضے کی وجہ سے یہ دونوں احتجاج دب کر رہ گئے۔

چند سال پہلے یہ رپورٹ  فقط ایک تجویز نظر آتی تھی جس کے کچھ حصے منظر عام پر آئے تھے، لیکن آج یوں لگتا ہے اس پر مکمل عمل درآمد ہو نے والاہے اور ایک بہت بڑے اسٹیج کے لیے تیاریاں مکمل ہو رہی ہیں۔ ایک بہت بڑی عالمی جنگ کا اسٹیج۔ عرب دنیا میں گزشتہ چند سالوں سے جو عرب بہار کے نام تحریکیں برپا ہوئیں اور پھر ان کے انجام نے جس افراتفری نے جنم لیا اس نے پورے خطے میں اسلحے کی دوڑ کو تیز کر دیا۔ شام، عراق،لیبیا، سودی عرب، یمن، بحرین، نائجیریا، صومالیہ، ہر طرف بندوقیں تنی ہوئیں ہیں، اور ان ملکوں میں سے کوئی بھی اسلحہ نہیں بناتا، سب امریکا اور حواریوں سے خریدتے ہیں۔

روس کے ساتھ مغرب کے تعلقات بہتر تھے اور مغربی طاقتیں بھی اس کی بہت عرصہ ناز برداری کرتی رہیں۔ لیکن اب یہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔ آج سے صرف چند سال پہلے اگر کسی کو یہ بتایا جاتا کہ امریکا کے علاقے ٹیکساس اور اوکلوہاما میں موجود تیل کے ذخائر کو مارکیٹ میں لے آیا جائے گا جنھیںShaleآئل کہتے ہیں، تو کوئی یقین تک نہ کرتا۔ کیونکہ اس تیل کو زمین سے نکالنے میں اسقدر لاگت آتی ہے کہ اگر تیل ستر ڈالر فی بیرل نہ بکے تو نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ جنگ میں مخالفین کو مالی طور پر کمزور کرنے اور اتحادیوں کے سرمائے میں اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس لیے امریکا اب تیل پیدا کرنے والا سب بڑا ملک بن چکا ہے۔ تیل کی قیمتیں گرنے سے جو کچھ ہوا،اس سے آیندہ کے منظر نامے کا پتہ چلتا ہے۔ بھارت ہر سال تیل پر دس ارب ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے اب یہ اس کی بچت ہے۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں ایک ڈالر کی کمی ہوتی ہے تو اس کی بچت میں2ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ امریکا میں ہر شہری کی بچت دوگنی ہو جائے گی۔لیکن روس، ایران،وینزویلا اور سعودی عرب کی معیشتیں خطرات کا شکار ہوں گی۔ ان میں سعودی عرب خطرے سے سنبھل سکتی ہے لیکن روس کا روبل تو بری طرح اپنی قیمت کھو چکا ہے۔ ایران کو اپنی معیشت بچانے کے لیے امریکا اور مغربی طاقتوں سے اتحاد کرنا پڑرہا ہے تا کہ پابندیاں ختم ہوں اوروینز ویلا تو شاید دیوالیہ ہو جائے۔ تیل سے پیدا ہونے والے اس بحران میں جنگوں کی آگ بھی سلگنے لگی ہے۔

چین اور بھارت دو حکومتیں سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی اور ہنومان اپنی دم میں آگ باندھ کر بھارت پہنچ گیا ہے۔ ساری بچت اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوگی۔ دوسری جانب پاکستان کا خوف اسے چین لے گیا ہے اور چین کا خوف اسے یاد دلا رہا ہے کہ یہ ساری منصوبہ بندی تو اس کے خلاف پانچ سال سے چل رہی ہے۔ لیکن چین کی تاریخ تو تجارت سے بھری پڑی ہے، لڑائی سے اس کا دور کا واسطہ نہیں ، بس دیوار چین بناؤ اور خود کو محفوظ کر لو۔ امریکا کے ساحلوں سے لے کر ملیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں چند فیصد چینی بستے ہیں جو نوے فیصد سے زیادہ کا روبار پر چھائے ہوئے ہیں ۔فرانس نے ذرا سا اس جنگ سے باہر ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہی تھے کہ کارٹونوں کے واقعے کے بعد پورے یورپ کو وہاں اکٹھا کر دیا گیا۔ یورپ کیوں نہ اکٹھا ہوتا، جس دولتِ اسلامیہ سے جنگ کا میدان سجایا جار ہا ہے۔

اس میں یورپ کے ممالک کے مسلمان لڑنے جار ہے ہیں اور تشویش کا عالم یہ ہے کہ وہاں پر بسنے والے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی شدت پسند اور دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ جرمنی کی چانسلر نے جب یہ کہا کہ اسلام کا تعلق جرمنی سے بھی ہے توDEGIDAتحریک پچیس ہزار افراد کو سڑکوں پر لے آئی  اور نعرہ یہ تھا کہ یورپ اور اسلام دو مختلف نام ہیں۔ تمام اسٹیج سج چکا ہے اور اب لبنان کے قریب اسرائیل کے سپاہیوں پر میزائل سے حملہ ایک بار پھر حزب اللہ اسرائیل جنگ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ دبئی میں سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سب نے مل کر سوچا کہ کونسا شہر ایسا ہے جو دبئی کی اس سرمایہ کاری کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ سب اس نتیجے پر پہنچے کہ بیروت ہے۔عربوں کی عیاشی کا سب سامان بھی موجود ہے اور زبان کا مسئلہ بھی نہیں۔ پھر کیا تھا دو سرائیلی سپاہی حزب اللہ کے قبضے میں آئے اور جنگ شروع ہوگئی۔

حزب اللہ کے سب ٹھکانے تو محفوظ رہے جو اسرائیل کی سرحد پر واقع تھے، حسن نصراللہ بھی ہزاروں لوگوں کی ریلیاں بھی کرتا رہا، کوئی القاعدہ یا طالبان ہوتا تو ڈرون سے اڑا دیا جاتا، لیکن بیروت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ حالانکہ بیروت شہر میں تو عام شہری رہتے تھے۔اسرائیل کو ایک بار پھر اس جنگ میں براہ راست دھکیلنے کا مقصد شام اور عراق میں جنگ کے شعلوں کو بھڑکانا ہے۔ بشارالاسد پر حملہ ہو یا دولتِ اسلامیہ پردونوں صورت اسرائیل کی خوشی۔ کیا یہ صرف ایک عالمی جنگ کا آغاز ہو گا یا آخری معرکۂ حق و باطل۔ہر کسی کا ایمان اسے روشنی دکھا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔