جدید اشتہاری عالمگیریت

قمر عباس نقوی  بدھ 4 فروری 2015

ہماری زندگی کا مشاہداتی پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ قیمتی زندگی کا بیشتر حصہ ہائے مہنگائی، ہائے مہنگائی کا نوحہ پڑھتے پڑھتے اپنی زندگی تمام کر لیتے ہیں۔ اس کی شاید بنیادی وجہ یہی ہو کہ ہم معاشرتی اور ثقافتی طور پر اس کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔

ہم بذات خود اپنے برتاؤ، رویوں، ذہنی پختگی جیسی خصوصیات کے حامل نہیں رہے۔ مہنگائی یا قوت خرید میں کمی کی بہت ساری وجوہات ہمارے سامنے آئی ہیں مثال کے طور پر عالمی کساد بازاری، عالمی منڈی میں ڈالر کی قیمت میں غیر متناسب اُتار چڑھاؤ، پاکستان میں حکومت کے زیر اثر پولیس اور مافیہ کی بھتہ خوری، عالمی بینکوں سے سخت شرائط پر قرضوں کا حصول اور ان کی ری شیڈولنگ، تجارتی منڈیوں میں اجارہ دارانہ نظام جیسی مرکزی عوامل مہنگائی میں اضافے کی وجہ ہو سکتی ہے۔

مگر آج ہمار ا موضوع بحث مارکیٹنگ سے متعلق اہم شعبے اشتہاری دنیا سے ہے جو ہماری ٹوٹی پھوٹی معیشت کی کمزور بنیاد ہے۔ اس وقت اشتہاری صنعت سب سے زیادہ مہنگی صنعت قرار دی جا چکی ہے۔ جدید اشتہاری عالمگیریت صنعتوں کے فروغ کی اہم علامت بن چکی ہے۔ کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ قیمتوں میں چڑھاؤ کا بنیادی سبب بھی یہی اشتہاری دنیا ہے۔ اس کی ضرورت شاید اس لیے ہو کہ قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلے کا رجحان جنم لے چکا ہے۔

زندگی کا کوئی شعبہ خواہ وہ تعلیم، صحت، فلاح بہبود سے ہی کیوں نہ ہو بغیر اشتہاری مہم کے ناممکن ہے۔ اشتہارات کا شعبہ دراصل مارکیٹنگ اور بزنس کمیونیکشن  کے ساتھ ساتھ اکیڈمک اور پیشہ وارانہ تعلیم میں ایک اہم اور لازمی مضمون (Subject)کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جو ایک جدید اشتہارا ت کی دنیا کے قیام کی کامیاب پیش قدمی ہے ۔

اشتہار(Advertisement) یا (Publicity)  کا مطلب ہے کمپنی کی طرف سے تیار کردہ مصنوعات کی عوام الناس میں تشہیر۔ تشہیر کا مقصد صارفین کو ترجیحی بنیادو ں پر مصنوعات کی خرید پر رضامند کرنا۔  کہا جاتا ہے کہ عوامی ضروریات کے تحت اس پیداواری صنعت کی ابتدا ء 1920ء کی دھائی میں اس وقت ہوئی جب ایک مشہور زمانہ اشتہاری کمپنی ’’ماڈیسن ایونیو ایڈورٹائزنگ‘‘ جس کا روح رواں اور بانی ایڈور ڈ برنیزEdward Bernays تھا سب سے پہلے تمباکو کی عوام الناس میں تشہیر کی مہم کا باقا عدہ آغاز کیا تھا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوامی جدید ضروریات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس کی ترقی میں تمباکو کی صنعت وہ واحد پیداواری اکائی ہے جس نے ضرورت کے تحت جدید پیداواری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کو ممکن بنایا۔ تشہیر کے بے شمار تیکنیکی اور غیر تیکنیکی طریقے اس وقت رائج ہو چکے ہیں۔

تشہیر کا سب سے مہنگا اور موثر ذریعہ الیکڑانکس میڈیا (On-Air System) ریڈیو، ٹیلی ویژن ہیں۔ تشہیر کا دوسرا اہم اور موثر ذریعہ کاغذی پر نٹ میڈیا ہے یعنی اخبارات، پمفلٹ، پوسٹرز، رسائل، میگزین، ڈائجسٹ اور دیگر بے شمار شایع ہونے والے جریدے شامل ہیں۔ تشہیر کی تیسری شکل سڑکو ں کے دونوں اطراف نمایاں مقامات پر بل بورڈ ز کی تنصیب، شہر میں تعمیر شدہ تجارتی اور غیر تجارتی عمارتوں پر فنی طریقے سے بنائی گئی روشن الیکڑیکل ہورڈنگز جو رات کے وقت شہر کوایک نیا حسن عطا کر رہی ہوتی ہیں ۔ سڑکوں پر قائم پیڈسٹران پر نمایا ں بل بورڈز کی تنصیب۔ بلاشبہ یہ طریقہ اشتہارات اَ ربنائزیشن (Urbanization) کی ایک جدید مثال ہیں۔

دیہاتی اور دو دراز علاقوں میں اشتہاری مہم کے کچھ مختلف روایتی اندازہیں جن میں دیواروں پر چوکنگ، گلی کوچوں میں ڈھول تاشے کی شکل میں مصنوعات کی تشہیر کے لیے مختلف دور میں مختلف طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ ابتدائی قدیمی زمانے میں ڈھول پیٹ کر یا ڈھنڈورے کے ذریعے کسی چیز کو مشتہر کیا جاتا تھا۔ ضمیمہ کی اشاعت بھی ایک قدیمی طریقہ تھا۔ چھوٹے تربیتی ہوائی جہازوں کے ذریعے فضا سے زمین کی طرف پمفلیٹ پھینکے جایا کرتے تھے۔ دکاندار اپنی چیزوں کی فروخت کے لیے اپنی دکانوں پر بیٹھے ہوئے میٹھی اور شائستہ زبان میں صدائیں لگایا کرتے تھے۔

پھیری والے گلی کو چوں میں گھومتے پھرتے صدائیں لگاتے ہوئے اپنے مال کا مجسم اشتہار بنے نظر آتے تھے۔ موجودہ دور کی سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی نے تمام قدیمی، فرسودہ اور روایتی اشتہاری طریقوں کو پس پشت ڈال کر اس کو ایک بہترین منافع بخش صنعت اور جدید پیشہ ورانہ فن کی شکل میں تبدیل کر دیا ہے جو بلا شبہ قدرت کا ایک انمول شاہکار ہے۔ فیسٹول اور صنعتی نمائشوں کا انعقاد بھی اشتہاری مہم ہی کی ایک جدید شکل ہے۔ کمپنیوں کی طرف سے اس شعبے میں سر مایہ کاری کا کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو مگر اس کا سب سے بڑا فائد ہ ہماری شو بزنس انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ادا کاروں، ہدایتکاروں کو ضرور پہنچتا ہے۔

اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے کچھ قومی کھلاڑیوں نے بھی اس صنعت کی طرف رخ کیا ہے۔ اس فن کو فروغ دینے کے لیے بہت سی اشتہاری ایجنسیاں منظم ہو چکی ہیں جو انتہائی دلکش اور جاذب نظر انداز میں لوگوں کی توجہ کو مبذول کرانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے اشاعتی ادارے اس وقت بے شمار کتب فن اشتہار پر شایع کر چکے ہیں۔ چیز کی کوالٹی ہی خود ایک اشتہار ہے مگرافسوس کوالٹی کی بجائے کوانٹٹی (Quantity) پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔

اشتہارات یا تشہیر اتنی پرکشش انداز میں کی جا رہی ہیں کہ اصل اور نقل میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کوالٹی بھی ایسی ہونی چاہیے کہ اس شے کی عالمی منڈیوں میں مانگ بڑھ جائے کہ جس سے ملک کو زرمبادلہ کی مد میں خطیررقوم کی وصولی ممکن ہو سکے جو ملکی/ قومی  معیشت کا پہیہ چلانے میں ممد اور کارِگر ثابت ہو سکے۔  اشتہار بازی جہاں عوام الناس کے لیے مفید  ہے دوسری طرف نقصان دہ بھی ہے کیونکہ اس پر گرانقدر لاگت صرف ہوتی ہے جو شے کی قیمت کے تعین پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس صنعت سے لاکھوں افراد کا روز گار بھی وابستہ ہے۔

ہماری دانست میں عام طور پر صارف کو شے کے بارے میں جاننے کے لیے چھ اقدام سے گزرنا پڑتا ہے ۔(۱) آگاہی (۲) معلومات (۳) پسند، نا پسند (۴) ترجیحات (۵) Conviction (۶) خرید کا عمل۔ قدیم زمانے میں مقابلے کا دور نہیںتھا۔ چند ایک کمپنیاں کم سرمایہ کاری پر اشیاء مینوفکچر کیا کرتی تھی۔ کمپنیاں جتنی زیادہ مارکیٹ میں سرگرم ہوئیں اُتنی ہی تعدا د میں  مقابلے کی صورت میں کچھ جعل ساز کمپنیاں بھی سرگر م ہو گئیں انھوں نے بھی اپنی مصنوعات کے فروغ کے لیے اشتہار بازی کا سہارا لیا۔ اس اشتہاری مہم کی وجہ سے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اشتہار بازی کی زد میں نہ ہو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری پوری زندگی بھی اشتہارات کی  ہو چکی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔