مختلف مذاہب میں آخری رسومات ادا کرنے کے دلچسپ مگر ظالمانہ طریقے

ویب ڈیسک  اتوار 14 مئ 2017
دنیا بھر میں مرنے والوں کی آخری رسومات مختلف مذاہب میں مختلف طریقے سے ادا کی جاتی ہے فوٹو:فائل

دنیا بھر میں مرنے والوں کی آخری رسومات مختلف مذاہب میں مختلف طریقے سے ادا کی جاتی ہے فوٹو:فائل

موت کا مزہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن مرنے کے بعد انسان کی آخری رسومات کس طرح اداکی جائے اس کا تصور مختلف مذاہب میں مختلف ہے اور لوگ اسے اپنی مذہبی، ثقاتی اور روائتی انداز سے ادا کرتے ہیں اور بہت سے انداز سے تو عام طور پر لوگ واقف ہی ہیں لیکن کچھ  طریقے ایسے دلچسپ اور ظالمانہ ہیں کہ جنہیں جان کر آپ نہ صرف حیران بلکہ کچھ پریشان بھی ہوجائیں گے۔ 

مردہ کو ممیز میں تبدیل کرنا: آج سے ہزاروں سال قبل  قدیم مصر میں امرا اور بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اس طریقے میں دل اور دماغ سمیت لاش کے مختلف حصوں کو کو الگ کردیا جاتا تھا جس کے بعد خالی جسم کو کیمیکل لگے لکڑی کے برادے سے بھر دیا جاتا تھا اورپھر پورے جسم کو سوتی کپڑے سے لپیٹ کر محفوظ کردیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح اگلے سفر تک محفوظ رہتی ہے، دنیا کی قدیم ترین ممی 6 ہزارسال پرانی ہے۔

کریانوکس: قدیم زمانے میں لوگ مردہ انسان یا جانور کو انتہائی کم درجہ حرارت پر یعنی برف میں دبا کر کافی عرصے  تک رکھ دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے مستقبل کوئی ایسی دوائی مل جائے جس کا استعمال کر کے اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔

خلیوں کو پلاسٹک میٹریل سے تبدیل کر کے: زمانہ قدیم میں دنیا کے ان علاقوں میں جہاں سائنس کی ترقی اپنے عروج پر تھی وہاں مردہ انسان کے جسم سے خلیوں کے مرکزہ میں موجود سیال مائع  اور چکنائیوں کو نکال کر اس کی جگہ پر پلاسٹک اور سیلی کون کے مصنوعی اعضا لگادیئے جاتے تھے جس سے لاش ایک طویل عرصے تک محفوظ رہتی اور اس میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں آتی تھی۔

بحری جہاز پر آخری رسومات: دسوی صدی میں یورپی ساحلوں پر راج کرنے والے بحری قزاقوں کے سرداروں کی لاشوں کو ایک بحری جہاز پر رکھ کر اس کے ساتھ  سونا، کھانا، اور کبھی کبھار غلاموں کوبٹھا کر سمندر کے بیچ پہنچا کر آگ لگادی جاتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح پرسکون رہتی ہے۔

درختوں پر رکھ  کر: آسٹریلیا، برطانیہ، کولمبیا اور سربیا میں بھی کچھ قبائل لاش کو درخت کی جڑوں اور شاخوں سے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے۔

خاموشی کا مینار: زمانہ قدیم میں آتش پرست لاش کو اونچے پہاڑ پر بنے خاموشی کے مینار(ٹاور آف سائیلنس) پر لا کر چھوڑ دیتے اور جب کچھ عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتیں تو انہیں جمع کرکے چونے میں ڈال کر گلا دیتے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والے نے جس جس چیزکوچھو کر گندہ کیا ہوتا ہے وہ اس عمل سے پاک ہوجاتی ہے۔

مردے کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ کر رکھنا: مغربی پاپواگنی کے دانی قبیلے لوگ مرنے والے کے ساتھ اپنے دکھ کے اظہار کے لیے ایک عجیب رسم ادا کرتے ہیں اور اس رسم میں مرنے والے کی رشتہ دار خاتون اپنی انگلیاں کاٹ کر مردے کےساتھ دفن کردیتی ہیں جس سے وہ اپنے دکھ اور غم کا اظہار کرتی ہیں۔

اسپرٹ آفرنگ: ایشیا کے کچھ قبائل مردے کو آبادی سے دور کھیتوں میں دفنا دیتے ہیں اس کے لیے وہ ایک بڑے پتھر کو بیچ میں رکھ کر اوپر جانور کا چارا رکھ دیتے ہیں۔ ویتنام کے لوگ لاش کے ساتھ کچھ رقم بھی رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مرنے والا اپنی ضرورت کے مطابق آئندہ زندگی کے لیے جو چاہے خرید لے۔

ایکوا میشن: امریکا میں عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں لاش کو ایک اسٹیل کی مشین میں رکھ کر اسے ایک خاص درجہ حرارت پر چلایا جاتا ہے جس سے جسم مائع میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ ہڈیاں محفوظ رہتی ہیں تاہم اسے ہاتھوں سے راکھ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس راکھ کو متعلقہ رشتے دار کے حوالے کردیا جاتا ہے جو اسے پانی میں بہا دیتا ہے۔

خلا میں: 20 ویں صدی میں شروع ہونے والے اس طریقہ میں مرنے والے کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کے جلائے ہوئے اجزا کو خلائی کیپسول میں رکھ کر راکٹ کی مدد سے فضا میں فائر کردیا جاتا ہے، اس طریقے سے اب تک 150 افراد کو آخری رسومات ادا کی گئیں ہیں۔

آسمانی رسومات: ہزاروں سال کے رائج اس رسم  میں تبت کے رہنے والے بدھ بھکشو اپنے مردے کی لاش کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پرندوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں جب کہ اب بھی 80 فیصد بدھ بھکشو یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

ٹیکسی ڈرمی: اس طریقہ میں مرنے والے جانور کو کھال کو کیمیکل لگے بھوسہ بھر کر اس کو دوبارہ زندگی والی شکل دی جاتی ہے لیکن اب کچھ لوگ مرنے کے بعد اپنی ٹیکسی ڈرمی کرنے کی وصیت بھی کر تے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/126.jpg

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔