کسان کانفرنس اور زرعی اصلاحات

ظہیر اختر بیدری  منگل 17 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کوئی دس سال پہلے 2005 کی بات ہے، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پنجاب کے دوستوں نے عابد حسن منٹو کی رہنمائی میں ایک کسان کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ہمیں بھی شرکت کی دعوت ملی اگرچہ ہم اس وقت بھی بیمار تھے لیکن کسان کانفرنس کے نام کی کشش نے ہم میں ہمت اور ترغیب فراہم کی اور ہم نے اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

کراچی سے کئی دوست بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے جن میں معراج محمد خان، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ سمیت کئی دوست شامل تھے، سو ہم بھی ٹرین کے ذریعے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچے۔ رات آرام کرنے کے بعد دوسرے دن کسان کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس کتنی کامیاب رہی، اس کے قطع نظر یہ ایک مثبت پروگرام اس لیے تھا کہ ہمارے اہم قومی مسائل میں فیوڈل ازم کا خاتمہ ایک اہم مسئلہ تھا اور ہے چونکہ کسان کانفرنس جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی کوششوں ہی کا ایک حصہ تھی لہٰذا ہم اسے ایک کامیاب کوشش ہی سمجھتے تھے۔

لیکن عشروں کی احمقانہ انقلابی پریکٹس کے پیش نظر ہمیں یہ کانفرنس بھی اسی روایتی پریکٹس کا حصہ دکھائی دے رہی تھی سو اچھا لگا اور اس اجتماع کو بامقصد بنانے کے لیے ہم نے عابد حسن منٹو سے یہ وعدہ لیا کہ وہ چاروں صوبوں کے نمایندوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کانفرنس کو بامقصد بنانے کے لیے ایک خصوصی اجلاس کا بھی اہتمام کریں گے، جس میں زرعی اصلاحات سمیت ملک کے اہم مسائل کے حوالے سے کوئی قابل عمل پروگرام بنایا جائے۔

اگرچہ ہماری خواہش پر کسان کانفرنس کے بعد ایک مقامی ہوٹل میں چاروں صوبوں کے دوستوں کا ایک اجلاس ہوا اور اس میں کچھ پروگرام بھی بنے لیکن ہماری تازہ انقلابی روایات کے مطابق سارے پروگرام سارے فیصلے ہماری کاہلی کی نظر ہوگئے اور ایک نمایندہ اجتماع جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا محض ہماری انقلابی نااہلی کی نظر ہوگیا۔ اور یہ اجلاس عملاً نشستند گفتند و برخواستند کے سواکچھ نہ ثابت ہوسکا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لیے پاکستان کے ابتدائی دور میں ہمارے روشن خیال دوستوں نے بڑی جدوجہد کی مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، وکیلوں، ڈاکٹروں وغیرہ میں موثر تنظیمیں بنائیں لیکن یہ سب کیا کرایا ہماری نظریاتی کجروی بلکہ جہالت کی نذر ہوگیا اور اب ہم اس مقام سے بھی بہت پیچھے کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔

آج ہمیں 2005 کی کسان کانفرنس اس لیے یاد آئی کہ آج کل جس انقلابی سے پوچھو بھئی! کیا کر رہے ہو؟ وہ یہی جواب دیتا ہے کہ اس ہمہ جہت ماری ماری کی ’’فضا‘‘ میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ بلاشبہ آج ہمارا ملک جس انارکی اور دہشت گردی کی زد میں ہے اس میں اپنے لیے کام ڈھونڈنا یا فنکشنل ہونا بڑا مشکل ہے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک انقلابی رومانیت کا شکار تو ہیں لیکن یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہم اس ہڑبونگ میں کیا کریں۔

اب انقلابیوں کو 1917 اور 1949 سے باہر آکر حالات حاضرہ کی روشنی میں اپنے لیے راہ عمل تلاش کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں جو سیاست متعارف ہوئی ہے اسے ہم مختصر لفظوں میں کرپشن کی سیاست کہہ سکتے ہیں۔ یہ سیاست جو جمہوریت کے نام پر کی جا رہی ہے گندگی کا ایک ایسا ڈھیر ہے جس میں کرپٹ سیاستدان ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔

سندھ اور پنجاب میں آج بھی جاگیردارانہ نظام موجود ہے، وڈیرے اور جاگیردار ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں اور زرعی معیشت کی کمائی کو صنعتی معیشت میں لگا کر وقت واحد میں جاگیردار بھی بنے ہوئے ہیں اور صنعتکار بھی ان دو صوبوں میں چونکہ وڈیرہ شاہی مضبوط ہے لہٰذا ان دو صوبوں میں ہاریوں کسانوں کو اپنے طبقاتی اور انسانی حق کے حصول کے لیے بیدار کرنا ضروری ہے۔ ہمیں ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے حیدرآباد میں ہاریوں اور کسانوں کے ایک کانفرنس نما جلسے میں شریک ہونے کا موقعہ ملا۔ جس میں بلاشبہ سیکڑوں ہاری کسان اور ان کی خواتین شریک تھیں۔

دن بھر جاری رہنے والے اس اجتماع میں بڑا جوش و خروش تھا، اس اجتماع کو پرکشش بنانے کے لیے ثقافتی پروگرام بھی رکھے گئے تھے۔ اس اجتماع میں ہاریوں اور کسانوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے دھواں دھار تقریریں کی گئیں۔

اس حوالے سے ہمارے علم میں آیا کہ کئی اور جگہوں پر بھی کسانوں، ہاریوں کے اجتماع ہوتے رہے ہیں چونکہ یہ اجتماعات غیر سرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام ہوتے رہے ہیں اس لیے ان میں مقصدیت اور منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے لیکن ایک بات بہرحال واضح ہوگئی ہے کہ اس ناموافق فضا میں بھی اس قسم کے اجتماعات ہوسکتے ہیں۔ اگر ہمارے ’’واٹ از ٹو بی ڈن‘‘ کی رٹ لگانے والے دوست بجائے اس سوال کو دہرانے کے کسانوں ہاریوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں تو ہمارا خیال ہے یہ کام ’’واٹ از ٹو بی ڈن‘‘ کے سوال کا بامعنی جواب ہوسکتا ہے۔

کراچی میں ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ پارٹی میٹنگیں کرنے والے محترم دوست کراچی سے نکل کر اندرون سندھ جانے کی زحمت کریں اور غیر سرکاری تنظیموں سمیت ہاریوں کسانوں کی مختلف تنظیموں کا تعاون حاصل کرکے حیدرآباد میں ایک بڑی کسان کانفرنس کی تیاری کریں تو پھر انھیں کیا کریں؟ کا سوال دہرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

یہ درست ہے کہ اس قسم کی کانفرنسیں کرنے کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چونکہ انقلابی دوستوں کی صفوں میں اللہ کے فضل سے صاحب وسائل دوست بھی موجود ہیں اور صلاح و مشورے کے لیے عابد حسن منٹو جیسے دانشور اور کھلے ہاتھ اور کھلے ذہن والے لوگ بھی موجود ہیں جو اس کام میں بڑی مدد کرسکتے ہیں اور جنھیں کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا تجربہ بھی ہے۔

کیا ان کی ’’صلاحیتوں‘‘ سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا؟ زرعی اصلاحات کے لیے منٹو صاحب عرصے سے عدالتی لڑائی لڑ رہے ہیں، بحیثیت وکیل اگر وہ یہ عدالتی لڑائی لڑ رہے ہیں تو بحیثیت انقلابی سیاستدان وہ کسان کانفرنس کی لڑائی بھی لڑسکتے ہیں اور زرعی اصلاحات کے لیے شہروں میں دھرنے بھی دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔