انسان کو اسٹریس کی وجہ خود انسان ہی ہے

عارف محمود کسانہ  جمعـء 24 اپريل 2015
اسٹریس یعنی ذہنی دباو، صحت انسانی کا خطرناک دشمن ہے اور المیہ یہ ہے کہ دور حاضر کا ہر انسان کسی نہ حوالے سے اس کا شکار ہے۔

اسٹریس یعنی ذہنی دباو، صحت انسانی کا خطرناک دشمن ہے اور المیہ یہ ہے کہ دور حاضر کا ہر انسان کسی نہ حوالے سے اس کا شکار ہے۔

اسٹریس یعنی ذہنی دباو، صحت انسانی کا خطرناک دشمن ہے اور المیہ یہ ہے کہ دور حاضر کا ہر انسان کسی نہ حوالے سے اس کا شکار ہے۔ اسٹریس یا ذہنی دباو کا لفظ عموماََ ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ہم مختلف وجوہات کی بنا پرتناو اور پریشانی کا کا شکار ہوتے ہیں۔

یہ ایک قسم کی منفی قوت ہوتی ہے جس سے ہمارا جسم متاثر ہوتا ہے۔ اس کے محرکات بیرونی ہوتے ہیں اور یہ طویل مدت کے بھی ہوسکتے ہیں جیسے بے روزگاری، خانگی مسائل، مستقبل کا فکر وغیرہ اور یہ مختصر دورانیہ کے ہوتے ہیں جیسے ٹریفک میں پھنس جانا یا کسی جگہ وقت مقررہ پر نہ پہنچ سکنا اور پاکستان میں اسٹریس کی ایک نئی شکل لوڈشیڈنگ کی صورت میں بھی موجود ہے۔ اسٹریس ہر وقت بُرا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات مثبت اسٹریس کسی بھی کام کو بر وقت کرنے کے لیے اہم ہے جیسے کسی طالب علم کے لیے امتحان کی تیاری۔

اسٹریس یا ذہنی دباو اس وقت مسئلہ بنتا ہے جب وہ دائمی اور لمبے عرصہ کے لیے ہو اور اُسے اپنے آپ پر حاوی کرلیا جائے جس سے جسم انسانی کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔ یہی اسٹریس بعد میں بے چینی (anxiety) جو بڑھ کر ڈپریشن تک جاسکتا ہے۔ اسٹریس پھر Distress کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ کسی متوقع خطرہ سے پیدا ہونے والے حادثہ سے خوف اور پریشانی اور ماضی میں ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعہ سے پیدا ہونے والی صورت حال حزن بھی ذہنی دباو کا سبب بن جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو ناکام سمجھنا اور مطلوبہ نتائج نہ ملنا، پریشان رہنا، منفی خیالات ، خود اعتمادی اور وقت فیصلہ کی کمی جیسی صورت حال ظاہر ہوتی ہے۔

اسٹریس، انسانی جسم پر بہت نقصان دہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمارا جسم اس چیلنج سے نمٹنے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے، کبھی وہ کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ بیرونی محرک سے انسان کا اعصابی نظام اثر لیتا ہے اور دماغ کے حصہ ہائی پوتھلمس کو مضر پیغام ملتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ CRH نامی ہارمون خارج کرتا ہے جو Pituatry Gland کو ایک اور ہارمون ACTH خارج کرنے کے لیے کہتا ہے جس کے نتیجہ میں گردوں میں موجود Adrenal Cortex مزید ہارمون پید اکرتے ہیں ۔ دماغ براہ راست بھی گردوں میں موجود Adrenal Medulla کو ہارمون خارج کرنے کی ہدایات دیتا ہے۔

اسٹریس کی وجہ سے ایڈرینالین، تھائی رائیڈ ہارمون، انسولین، پرولیکٹن، کارٹی سول اور کچھ اور ہارمون دوران خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کی وجہ سے دوران اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ خون کا دباو اوردل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور جسم کا میٹا بولز متاثر ہوتا ہے۔ سانس تیز ہوجاتی ہے اور بعض صورتوں میں ہاتھوں میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوتی ہیں اور متاثرہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ بے ہوش ہونے لگا ہے۔ سر درد ، پٹھوں کا کھچاو اور کچھ لوگوں کو منہ کے چھالوں کی تکلیف ہوجاتی ہے۔ پژمردگی کا دورہ پڑ سکتا ہے اور کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ جسمانی مدافعتی نظام بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور جلدی انفیکشن ہونے لگتی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ اسٹریس سے وارثتی مادے ڈی این اے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

اسٹریس جیسی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے کاغذ اور قلم اٹھائیے اوراُن محرکات کی فہرست بنائیں جو آپ کے خیال میں ذہنی دباو کا سبب ہیں تاکہ اُن سے نمٹا جاسکے۔ کسی انجانے خوف اور خواہ مخواہ کے وسوسوں کو ذہن سے نکال دیں۔ ہر وقت منفی اور نقصان دہ نتائج نہ سوچیں۔ نتیجہ آپ کے حق میں بھی آسکتا ہے اس لیے ابھی سے پریشان نہ ہوں جب مشکل آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ کامیابیاں اور ناکامیاں زندگی کا حصہ ہیں۔ اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا ہر وقت رونا نہ روئیں بلکہ اپنی کامیابیوں کی بھی ایک فہرست بنائیں اور پژمردگی کے وقت اُس پر نگاہ ڈالیں۔

اپنا ایک Satisfaction Model بنائیں کہ آپ کے لیے کیا کیا بہت اہم اور ضروری ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ آپ نے اس میں سے کتنا حاصل کرلیا ہے۔ اپنے آپ پر فخر کریں اور اپنی قسمت پر مطمئن رہیں۔ آپ نے اپنے ذہنی دبائو کی جو فہرست بنائی اس پر بار بار غور کریں، اس طرح ممکن ہے کہ بہت سے وسوسے آپ نے جان بوجھ کر پال لیے ہوں اور وہ آپ کے لیے اتنے اہم نہ ہوں۔ انہیں فہرست سے نکال دیں۔ آپ اپنی پوری کوشش کے بعد نتائج اپنے رب پر چھوڑ دیں جس کا وعدہ ہے کہ کسی کی بھی محنت ضائع نہیں کرتا۔ ممکن جو آپ کو نہیں مل رہا اُسی میں آپ کی بہتری ہو۔ اپنے بہت اچھے دوست سے حال دل کہیں یا گھر کے کسی فرد سے اس بارے میں بات کریں بلکہ اپنے آپ سے بھی مشورہ کریں۔

آپ دیکھیں کہ پریشانی کم ہوتی جائے گی اور آپ ذہنی دباو سے نکلتے جائیں گے۔ آپ اکیلے نہیں جواس صورت حال سے دوچار ہیں۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آپ کی طرح ہوں گے۔ یہ سوچیں کے زیادہ سے زیادہ کیا ہوجائے گا؟ انسان کی ضرورت ایک وقت میں دو روٹیاں اور سونے کے لیے ایک بستر ہے باقی سب ہم نے غیر ضروری فہرست بنا رکھی ہے جس کے پیچھے پوری عمر بھاگتے رہتے ہیں۔ بقا صرف اللہ کی ذات کو ہے باقی ہر ایک کو فنا ہونا ہے اور ہر چیز کی Expiry date ہے۔ یہ دنیا بھی ایک دن ختم ہونے والی ہے تو پھر اس قدر پریشان ہونے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔

آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کا اپنا ہے۔ اگر آپ کی صحت اچھی ہوگی تو کام کرسکیں گے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرسکیں گے۔ اس لیے سب سے زیادہ توجہ اپنے آپ پر دیں۔ اپنی خوراک، آرام اور سکون کا خود خیال کریں۔ ورزش اور چہل قدمی کے لیے وقت ضرور نکالیں۔ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کوسکون ملتا ہے۔ اللہ کے بندوں کو خوف اورغم نہیں ہوتا تو ذہنی دبائو اور پریشانی آپ کا مقدر کیوں ہو۔ اپنا تعلق اپنے رب کے ساتھ جوڑیں۔

اللہ نے حضورﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ کون ایسا دکھ اور غم ہے جو حضورؐ نے اپنی اس دنیاوی زندگی میں نہیں اٹھایا ۔اُن کے اُسوہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سفر زندگی بسر کرنا چاہیے۔ دنیا کی فکر میں اپنے آپ کو پریشان نہ کریں جو اس کا مالک ہے وہ اس کے راز بہتر جانتا ہے آپ حکیم الامت کا یہ پیغام مد نظر رکھیں کہ

اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟

مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟

کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان کو اسٹریس کی وجہ خود انسان ہی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔