مسلمان ہیں تو کیا، یہ انسان بھی تو ہیں!

رضا ہاشمی  ہفتہ 23 مئ 2015
رونگیا کے یہ بے چارے انسان نما چیزیں یہ سمجھنے میں مصرف ہیں کہ انکی نسلیں تو یہاں پچھلے پانچ سو سالوں سے آباد ہیں یکدم غیر قانونی کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

رونگیا کے یہ بے چارے انسان نما چیزیں یہ سمجھنے میں مصرف ہیں کہ انکی نسلیں تو یہاں پچھلے پانچ سو سالوں سے آباد ہیں یکدم غیر قانونی کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

کبھی کبھی کچھ تصاویر ایسے مناظر اور لمحات کی شاہد ہوتی ہیں جو دیکھنے والے کو نہ بھی جھنجھوڑیں مگر ذہن میں پیوست ہوکر ضرور رہ جاتے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں ایسی ہی اک تصویر نظر سے گزری۔ سبز رنگ کی ایک سمندری کشتی جس کی لکڑی سے بنی سطح پانی میں رہ رہ کر پھسلن زدہ محسوس ہورہی تھی۔ دو ربڑ کے ٹائر اس سے لٹک رہے تھے شاید ایمرجنسی بوٹس کے طور پر لٹکا رکھے ہوں گے۔ کشتی پر عمر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے انسان نما چیزیں سوار تھیں۔ ادھ ننگے جسم، ہڈیاں یوں جیسے ابھی چمڑی پھاڑ کر باہر کو آئیں گی۔ چہروں پر خوف اور پریشانی عیاں تھا۔ اُن میں سے کچھ کشتی کے ساتھ لٹکتے ان ٹائروں سے لٹکے ہوئے تھے اور اُن میں سے ایک نیچے اس ہیبت ناک، سیاہ اور آلودہ  پانی میں۔

تصویر کے نیچے درج تھا روہنگیا مسلمانوں کی کشتی جسے ملائشیا نے اپنے ساحلوں پر اترنے کی اجازت نہ دی تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی یہ کشتی کئی دنوں سے بحیرہ انڈمان میں بھٹک رہی ہے کیونکہ قریبی ممالک جن میں ملائشیا انڈونیشیا بھی شامل ہیں، کوئی بھی انہیں اپنے ممالک میں  رکھنے کو تیار نہیں۔

تفصیل جاننے کے بعد محسوس ہوا کہ جس نے بھی یہ تصویر کھینچی کیا خوب کھینچی، ایک ایک احساس بھرپور واہ صاحب! تالیاں!! ۔۔۔۔۔ کیا ہوا کسی کے دکھ پر تالیاں بجانا بُری بات ہے؟ بے حسی ہے؟ ظلم کی فلاں فلاں قسم ہے؟ اچھا چلو، کیا لکھوں؟ کہ بہت ظلم ہو رہا ہے؟ انسانیت شرمندہ ہے؟ سب فضول! یقین جانئے ان خالی خولی لفظوں سے میں بے زار ہوں۔ مگر پھر بھی چند انقلابی چیخیں مار لیتے ہیں تاکہ فرض پورا ہو۔

ذکر ہے روہنگیا کے چیزوں نما انسانوں کا۔ روہنگیا برما کی مسلم اقلیتی برادری ہے۔ تعداد میں تقریباً 13 لاکھ کے قریب اور مغربی برما کی راخین ریاست کے باشندے ہیں۔ برما میں 1982 میں شہریت کا قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک یہ پُرامن مسلم آبادی اپنی شناخت کے حق کے لئے کوشاں ہے۔ حال ہی میں برما کے صدر تھائین سین نے اپنے عجیب مگر ٹارگٹڈ بیان میں روہنگیا آبادی کو غیر قانونی طور پر آباد بنگالی قرار دے کر برمی حکومت کی روہنگیا مسلمانوں کی جانب پالیسی واضح کردی ہے اور یہ بے چارے انسان نما چیزیں یہ سمجھنے میں مصرف ہیں کہ انکی نسلیں تو یہاں پچھلے پانچ سو سالوں سے آباد ہیں یکدم غیر قانونی اور پھر بنگالی بھی؟

سنہ 2012 سے بدھ مت کے پیروکار بھکشوؤں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ جس میں اب تک سینکڑوں جیتے جاگتے انسان ذبح کردئے گئے، جلا دئے گئے یا ڈبو دئے گئے جبکہ انکی املاک نذر آتش کردیں گئیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2014 میں بودھ بھکشوؤں کے ایک حملے میں 40 روہنگیا ذبح کر دئے گئے جبکہ 70 سے زائد مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ ستم ظریفی یہ کہ اس قتل عام کو مبینہ طور پر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ زمیں تنگ ہوئی تو یہ اپنی جانیں بچانے کے لیے پڑوسی ممالک کی طرف رُخ کیا۔ انسانی سمگلروں کے ذریعے کشتیوں میں سوار ہوکر جب یہ قریبی ممالک کے ساحلوں پر پہنچے تو انکے ساتھ کیا ہوا؟

بنگلہ دیش نے پناہ گزینوں کو مالی وسائل کی کمی کا عذر پیش کرکے پناہ دینے سے انکار کردیا۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے پہلے تو ان کے لئے اپنے دروازے کھولے مگر امریکہ کی جانب سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں اپنی ریٹنگ بہتر کرنے کی فکر میں تھائی لینڈ نے بھی انہیں خدا حافظ کہا۔ ملائشیا نے اپنے اندرونی سخت قوانین کے باعث کشتیوں کو واپس موڑ دیا، جبکہ انڈونیشیا نے بھی ملائشیا کی پیروی کی۔

انسانیت کی ٹھیکیدار اقوام متحدہ کی بیان بازی بھی جاری ہے جس نے اس ساری صورتحال کو انسانی المیہ کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ اس دوران سمندر میں بھٹکتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ انسانی سمگلرز بحری آپریشنز کے ڈر سے انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں جس کے بعد تو الامان الحفیظ!

لیکن اگر انسانی اسمگلرز کے پاس ہوں تو نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ ہی پینے کو۔ کوئی شدید بیمار ہوجائے تو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو بچ جائیں، مرد ہوں تو غلام اور عورتیں ہوں تو جسم فروشی کے ریکٹ میں شامل کردی جاتیں ہیں۔ بچوں کو جہاں چاہا استعمال کیا۔ مگر اِس سب کے باوجود دیگر ملک کو کیا فرق پڑتا ہے؟ اِس بے گھر اقلیت سے کسی خود دار، باوقار اور خودمختار اقوام اور ممالک سے کیا موازنہ؟ ان بیماریوں اور غربت کے ڈھیروں کو کوئی کیوں قبول کرے؟ چلئے ممالک کے تو اپنے قوانین ہوا کرتے ہیں تو انسانیت کی ٹھیکیدار اقوام متحدہ کو مختلف ممالک پر پابندیاں لگانے اور اٹھانے سے فرصت ہی کہاں ہے؟ اور ویسے بھی یہ روہنگیئے کیا چیز ہیں؟ اُن کے پاس تیل کے کنوئیں ہیں؟ یا انہوں نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی ہے؟ یا معاشی قوت بننے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ نہیں نا؟ تو پھر اب کیا اقوام متحدہ کے پاس ان غریبوں کو دیکھنے کا کام باقی رہ گیا ہے؟ اور تو اور آسٹریلوی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے شاید پوری دنیا کی ترجمانی کردی ہے۔

کہتے ہیں نہیں، نہیں نہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ یوں کشتیاں بھر کر (ہمارے ساحلوں پر) لے آئیں گے اور ہم وہ آپ کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے دیں گے؟ کبھی نہیں!

تو پھر کیوں ایسا نہ کیا جائے کہ اِن سب روہنگیا چیزوں کو ایک جگہ پر بند کردیا جائے اور انہیں ایٹم بم سے اڑا دیں۔ ان کی اذیت ختم اور مرسی کلنگ کا سہرہ بھی آپ کے سر! ہاں ایک تصویر ضرور لے لیجئے گا جو اِس منظرکی شاہد ہو کہ جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑے نہ بھی مگر ذہن میں پیوست ضررو ہو جائے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔