- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
مسلمان ہیں تو کیا، یہ انسان بھی تو ہیں!
کبھی کبھی کچھ تصاویر ایسے مناظر اور لمحات کی شاہد ہوتی ہیں جو دیکھنے والے کو نہ بھی جھنجھوڑیں مگر ذہن میں پیوست ہوکر ضرور رہ جاتے ہیں۔
Can we please help these stateless #Muslims from #Burma? I am sure #Pakistan has a heart & space for them. IL hire 40 pic.twitter.com/HDlADebEmz
— Ali Kamran Chishti (@akchishti) May 19, 2015
گزشتہ دنوں ایسی ہی اک تصویر نظر سے گزری۔ سبز رنگ کی ایک سمندری کشتی جس کی لکڑی سے بنی سطح پانی میں رہ رہ کر پھسلن زدہ محسوس ہورہی تھی۔ دو ربڑ کے ٹائر اس سے لٹک رہے تھے شاید ایمرجنسی بوٹس کے طور پر لٹکا رکھے ہوں گے۔ کشتی پر عمر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے انسان نما چیزیں سوار تھیں۔ ادھ ننگے جسم، ہڈیاں یوں جیسے ابھی چمڑی پھاڑ کر باہر کو آئیں گی۔ چہروں پر خوف اور پریشانی عیاں تھا۔ اُن میں سے کچھ کشتی کے ساتھ لٹکتے ان ٹائروں سے لٹکے ہوئے تھے اور اُن میں سے ایک نیچے اس ہیبت ناک، سیاہ اور آلودہ پانی میں۔
تصویر کے نیچے درج تھا روہنگیا مسلمانوں کی کشتی جسے ملائشیا نے اپنے ساحلوں پر اترنے کی اجازت نہ دی تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی یہ کشتی کئی دنوں سے بحیرہ انڈمان میں بھٹک رہی ہے کیونکہ قریبی ممالک جن میں ملائشیا انڈونیشیا بھی شامل ہیں، کوئی بھی انہیں اپنے ممالک میں رکھنے کو تیار نہیں۔
#Malaysia, #Indonesia say they will provide humanitarian assistance to those stranded at sea. #Rohingya #Burma #Bangladesh
— Steve Herman (@W7VOA) May 20, 2015
تفصیل جاننے کے بعد محسوس ہوا کہ جس نے بھی یہ تصویر کھینچی کیا خوب کھینچی، ایک ایک احساس بھرپور واہ صاحب! تالیاں!! ۔۔۔۔۔ کیا ہوا کسی کے دکھ پر تالیاں بجانا بُری بات ہے؟ بے حسی ہے؟ ظلم کی فلاں فلاں قسم ہے؟ اچھا چلو، کیا لکھوں؟ کہ بہت ظلم ہو رہا ہے؟ انسانیت شرمندہ ہے؟ سب فضول! یقین جانئے ان خالی خولی لفظوں سے میں بے زار ہوں۔ مگر پھر بھی چند انقلابی چیخیں مار لیتے ہیں تاکہ فرض پورا ہو۔
ذکر ہے روہنگیا کے چیزوں نما انسانوں کا۔ روہنگیا برما کی مسلم اقلیتی برادری ہے۔ تعداد میں تقریباً 13 لاکھ کے قریب اور مغربی برما کی راخین ریاست کے باشندے ہیں۔ برما میں 1982 میں شہریت کا قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک یہ پُرامن مسلم آبادی اپنی شناخت کے حق کے لئے کوشاں ہے۔ حال ہی میں برما کے صدر تھائین سین نے اپنے عجیب مگر ٹارگٹڈ بیان میں روہنگیا آبادی کو غیر قانونی طور پر آباد بنگالی قرار دے کر برمی حکومت کی روہنگیا مسلمانوں کی جانب پالیسی واضح کردی ہے اور یہ بے چارے انسان نما چیزیں یہ سمجھنے میں مصرف ہیں کہ انکی نسلیں تو یہاں پچھلے پانچ سو سالوں سے آباد ہیں یکدم غیر قانونی اور پھر بنگالی بھی؟
Thousands of #Rohingya Muslims butchered, thousands stranded on the sea, dying of hunger. save musilms in #Burma pic.twitter.com/pBzuVGcICp
— #IRAQ شمرية العراق (@moonnor27) May 19, 2015
سنہ 2012 سے بدھ مت کے پیروکار بھکشوؤں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ جس میں اب تک سینکڑوں جیتے جاگتے انسان ذبح کردئے گئے، جلا دئے گئے یا ڈبو دئے گئے جبکہ انکی املاک نذر آتش کردیں گئیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2014 میں بودھ بھکشوؤں کے ایک حملے میں 40 روہنگیا ذبح کر دئے گئے جبکہ 70 سے زائد مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ ستم ظریفی یہ کہ اس قتل عام کو مبینہ طور پر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ زمیں تنگ ہوئی تو یہ اپنی جانیں بچانے کے لیے پڑوسی ممالک کی طرف رُخ کیا۔ انسانی سمگلروں کے ذریعے کشتیوں میں سوار ہوکر جب یہ قریبی ممالک کے ساحلوں پر پہنچے تو انکے ساتھ کیا ہوا؟
بنگلہ دیش نے پناہ گزینوں کو مالی وسائل کی کمی کا عذر پیش کرکے پناہ دینے سے انکار کردیا۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے پہلے تو ان کے لئے اپنے دروازے کھولے مگر امریکہ کی جانب سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں اپنی ریٹنگ بہتر کرنے کی فکر میں تھائی لینڈ نے بھی انہیں خدا حافظ کہا۔ ملائشیا نے اپنے اندرونی سخت قوانین کے باعث کشتیوں کو واپس موڑ دیا، جبکہ انڈونیشیا نے بھی ملائشیا کی پیروی کی۔
انسانیت کی ٹھیکیدار اقوام متحدہ کی بیان بازی بھی جاری ہے جس نے اس ساری صورتحال کو انسانی المیہ کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ اس دوران سمندر میں بھٹکتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ انسانی سمگلرز بحری آپریشنز کے ڈر سے انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں جس کے بعد تو الامان الحفیظ!
Abbott tells the #Rohingya fleeing genocide in #Burma "Nope, Nope, Nope". Apparently there is a front door you can wait at during a genocide
— Kon Karapanagiotidis (@Kon__K) May 21, 2015
لیکن اگر انسانی اسمگلرز کے پاس ہوں تو نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ ہی پینے کو۔ کوئی شدید بیمار ہوجائے تو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو بچ جائیں، مرد ہوں تو غلام اور عورتیں ہوں تو جسم فروشی کے ریکٹ میں شامل کردی جاتیں ہیں۔ بچوں کو جہاں چاہا استعمال کیا۔ مگر اِس سب کے باوجود دیگر ملک کو کیا فرق پڑتا ہے؟ اِس بے گھر اقلیت سے کسی خود دار، باوقار اور خودمختار اقوام اور ممالک سے کیا موازنہ؟ ان بیماریوں اور غربت کے ڈھیروں کو کوئی کیوں قبول کرے؟ چلئے ممالک کے تو اپنے قوانین ہوا کرتے ہیں تو انسانیت کی ٹھیکیدار اقوام متحدہ کو مختلف ممالک پر پابندیاں لگانے اور اٹھانے سے فرصت ہی کہاں ہے؟ اور ویسے بھی یہ روہنگیئے کیا چیز ہیں؟ اُن کے پاس تیل کے کنوئیں ہیں؟ یا انہوں نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی ہے؟ یا معاشی قوت بننے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ نہیں نا؟ تو پھر اب کیا اقوام متحدہ کے پاس ان غریبوں کو دیکھنے کا کام باقی رہ گیا ہے؟ اور تو اور آسٹریلوی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے شاید پوری دنیا کی ترجمانی کردی ہے۔
کہتے ہیں نہیں، نہیں نہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ یوں کشتیاں بھر کر (ہمارے ساحلوں پر) لے آئیں گے اور ہم وہ آپ کو نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے دیں گے؟ کبھی نہیں!
تو پھر کیوں ایسا نہ کیا جائے کہ اِن سب روہنگیا چیزوں کو ایک جگہ پر بند کردیا جائے اور انہیں ایٹم بم سے اڑا دیں۔ ان کی اذیت ختم اور مرسی کلنگ کا سہرہ بھی آپ کے سر! ہاں ایک تصویر ضرور لے لیجئے گا جو اِس منظرکی شاہد ہو کہ جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑے نہ بھی مگر ذہن میں پیوست ضررو ہو جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔