گلگت بلتستان کا الیکشن اور انتخابی نظام

ایڈیٹوریل  بدھ 10 جون 2015
دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج خوش دلی سے قبول کرنے چاہئیں، فوٹو:فائل

دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج خوش دلی سے قبول کرنے چاہئیں، فوٹو:فائل

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے فتح حاصل کر لی ہے۔کل 24نشستوں پر ہونے والے الیکشن میں ن لیگ نے 14سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف اور مجلس وحدت المسلمین نے دو، دو، پیپلزپارٹی، اسلامی تحریک، جے یو آئی نے ایک ایک نشست حاصل کی جب کہ دو آزاد امیدوار بھی کامیاب ٹھہرے۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ شکست کھا گئے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق پولنگ مقررہ اوقات کے دوران مجموعی طور پر پرامن ماحول میں ہوئی۔ انتخابات کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور فوج بھی تعینات تھی۔

وزیرداخلہ چوہدری نثار نے گلگت بلتستان میں پر امن الیکشن کے انعقاد پر سیکیورٹی اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پرامن الیکشن کا انعقاد سیکیورٹی اداروں کی مربوط اور بہتر حکمتِ عملی کا ثبوت ہے۔ انھوں نے کہا ثابت ہو گیا کہ اگر مربوط سیکیورٹی پالیسی ہو تو بڑے سے بڑے الیکشن کاپرامن انعقاد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے گورنر برجیس طاہر نے بھی شفاف اور پرامن انتخابات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر صحیح طریقے سے سیکیورٹی کے انتظامات کیے جائیں تو انتخابات کو پرامن بنایا جا سکتا ہے۔ انتخابات پرامن بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں اور الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا طرز عمل بھی بڑا اہم ہوتا ہے۔ اگر امیدوار اپنے حامیوں کو قانون اور قاعدے کی پابندی کی تلقین کریں تو الیکشن پرامن ہو سکتا ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ گلگت بلتستان میں الیکشن انتہائی پرامن انداز میں ہوئے اور الیکشن کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ ایک دو جگہ سے بدانتظامی کی اطلاعات ضرور ملی ہیں لیکن پولنگ کے دوران اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

ویسے بھی گلگت بلتستان کے عوام مہذب اور پرامن طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کو گلگت بلتستان کے عوام اور الیکشن لڑنے والوں کے طرز عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔ گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ۔ ان بلدیاتی الیکشن میں بڑے پیمانے پر مار دھاڑ اور قتل و غارت کے واقعات ہوئے ‘ان واقعات کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن متنازعہ بن گئے ہیں۔ جمہوریت کو جاری رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ الیکشن کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔

دیگر سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج خوش دلی سے قبول کرنے چاہئیں۔ اگر کسی کو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار یا پولنگ کے عمل کے حوالے سے کوئی شکایات ہیں تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بات کی جائے یا پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ الیکشن کو متنازعہ بنانا اور پھر اس کی آڑ لے کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنا پاکستان کا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ اس کلچر کی وجہ سے ملک کو خاصا نقصان ہوا ہے ۔

پاکستان میں جب کبھی بھی مارشل لاء لگا ہے اس کی وجہ یہی رہی ہے کہ جمہوریت کا نام لینے والی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا آغاز کیا۔اس طرح ملک میں بے چینی اور خلفشار کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا فائدہ اٹھا کر جمہوریت کا بوریا بستر گول کر دیا گیا۔موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ الیکشنوں کو متنازعہ بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے‘ البتہ یہ کوشش مسلسل جاری رہنی چاہیے کہ الیکشن کا عمل شفاف ہو۔ اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ملک کی سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ جمہوریت کے استحکام کی بنیادی شرط یہ ہے کہ عوام کا مینڈیٹ انصاف کے تقاضوں کے مطابق حاصل کرنے کا نظام قائم کیا جائے۔ بھارت کے ساتھ لاکھ اختلافات سہی لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کا دائرہ کار اور ان کا پولنگ نظام بہترین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جب بھی الیکشن ہوئے ہیں ‘اور جو بھی جیتا ہے اس کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا ہے اور کسی نے بھی دھاندلی کا شور نہیں مچایا ۔پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس حوالے سے نیک نیتی اور صدق دل سے کام کرنا چاہیے۔

جمہوریت کا پہلا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت دائمی طور پر قائم نہیں رہ سکتی‘ اسے بہر حال آئینی مدت پوری ہونے کے بعد نئے الیکشن میں جانا پڑتا ہے۔ برسراقتدار جماعت جیتے یا ہارے اسے نتائج تسلیم کرنے پڑتے ہیں ۔لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام کو نقائص سے پاک کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھے ہو کر شفاف انتخابات کرانے کے لیے جدید اور سائنٹیفک نظام کو متعارف کروائیں۔ جب نظام بہتر ہو گا تو کسی کو الیکشن پر اعتراض نہیں ہو گا۔ بہرحال ملک میں مسلسل الیکشن ہوتے رہیں گے تو اس میں موجود خامیاں بھی بتدریج دور ہوتی چلی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔