امریکا میں نسل پرستی اور سیاہ فام صدر

رضا ہاشمی  اتوار 28 جون 2015
باراک اوباما کا صدر بن جانا نسل پرستی کا اختتام ہے؟ ایسا نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ یہ اس معاشرے کی لچکدار روش ہے۔

باراک اوباما کا صدر بن جانا نسل پرستی کا اختتام ہے؟ ایسا نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ یہ اس معاشرے کی لچکدار روش ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما اپنی مدت صدارت کےآخری ماہ و سال سے گزر رہے ہیں۔ اِسے سیاسی وراثت کی حکمت عملی کہیں یا پھر کچھ اور کہ باراک اوباما پچھلے تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے متنازع معاملات پر کُھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ اکثر اُن کی رائے غیر مقبول خطوط پر استوار نظر آتی ہے۔ ایک طرف خارجی محاذ پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، جس کے لئے اسرائیلی اور سعودی دباؤ کو نظر انداز کرنا، لاطینی امریکا میں امریکی جارحیت کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے وینزویلا کے ساتھ تعلقات کی استواری، امریکا سمیت پوری دنیا کو مسلمانوں کی جانب اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی تلقین تو دوسری جانب داخلی سطح پر اوباما ہیلتھ کیئر بل سے لے کر آئل پائپ لائن معاہدہ، یہ تمام اس متنازع معاملات کی فہرست میں سے کچھ ہیں جن پر نہ صرف امریکی صدر نے واشگاف الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے بلکہ اپنے موقف کو نافذ کرانے کے لئے جارح اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔

حال ہی میں باراک اوباما نے ایک ریڈیو انٹرویو میں امریکی معاشرے کے ایک  چبھتے، سلگتے اور سیاہ پہلو پر لب کشائی کی ہے۔ براک اوباما نےامریکی معاشرے میں نسل پرستی کے موضوع پر بات کی ۔

اوبامہ نے یہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کردیا کہ سیاہ فاموں کوغلام بنانا ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ یہ بات انہوں نے امریکی ریاست جنوبی کیرولینا کے شہر چارلسٹن میں ایک سفید فام شخص کے ہاتھوں افریقی امریکی میتھوڈسٹ چرچ (یہ چرچ افریقی امریکیوں کا سب سے قدیم چرچ تھا جسے پہلے بھی نسلی فسادات میں نذرآتش کردیا گیا تھا) میں ہونے والی ہلاکتوں کے تناظرمیں کہا۔ اس سے پہلے اسی تناظر میں وہ نسل پرستی کو امریکی معاشرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ بھی قرار دے چکے ہیں۔ امریکا، جو کہ جمہوریت، انسانی حقوق آئینی روایات سمیت آج کی دنیا کا رہنما ہے، اُس کے سیاہ فام صدرکے منہ سے ادا ہونے والے یہ الفاظ بلاشبہ اہمیت کے حامل ہیں ۔

پاکستانی میڈیا، خاص کرسوشل میڈیا (جو کہ آج کل ملکی سیاسی اتار چڑھاؤ کی رو میں بہہ رہا ہے) نے بھی اس معاملے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُسے امریکا کے خلاف اپنے جذبات کی تسکین کے لئے خوب استعمال کیا گیا۔ یقینی طور پر ہم سے کوئی بھی نسل پرستی کے حق میں نہیں مگر اس معاملے کوسنجیدہ طور پرسمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہاں پر کچھ اہم سوال یہ ہے کہ اوباما کو یہ بیان دینے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا امریکا میں نسل پرستی ختم ہونے کی بجائے بڑھنے لگی ہے؟ کیا ایک سیاہ فام کا امریکہ کی صدارت سنبھالنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکہ ایک نسل پرست معاشرہ نہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا یہ صرف نسل پرستی کا ہی معاملہ ہے یا اس کے دیگر پہلو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے؟امریکی صدر باراک اوباما نے جب منصب صدارت سنبھالا تو اسے امریکی معاشرے میں پسی ہوئی سیاہ فام نسل کی کامیابی اور امریکی معاشرے کی عظمت قرار دیا جاتا رہا۔ امریکی میڈیا نے اسے مارٹن لوتھر کنگ (جے۔آر) کے خواب کی تعبیر قراردیا۔ سیاہ فام امریکی صدر نے اپنی صدارت کے درمیان نسل پرستی پر شاید جان بوجھ کر رائے زنی نہیں کی ہے یا پھر وہ اِس حوالے سے بہت محتاط رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے بطور صدر اپنی کسی بھی تحریر یا تقریر میں لفظ نیگر(حبشی) کا ستعمال نہیں کیا کیونکہ یہ سیاہ فاموں کے لئے ایک ہتک آمیز لفظ سمجھا جاتا ہے۔ اوباما نے یہ لفظ صدر بننے سے قبل اپنی کتاب ’’مائی فادر ہیڈ اے ڈریم‘‘ میں کیا یا پھر اب مذکورہ بالا تقریرمیں، بطور صدر اُنہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ایک سیاہ فام صدر ہیں بلکہ انہوں نے حتی الامکان امریکی صدر کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔

سنہ 2008 کی میڈیا رپورٹس کا اگر جائزہ لیا جائے تو شائد سیاہ فام امریکی صدر اوباما سے کچھ زیادہ ہی اُمید کررہے تھے۔ وہ خوش تھے اور انہوں نے جشن بھی منایا تاہم اوباما کو جذبات کے بجائے صدارت کا بوجھ اٹھانا تھا اور وہی انہوں نے کیا۔ اب جبکہ انکا دور صدارت اختتام کے قریب ہے تو یوں لگتا ہے کہ وہ تنگ آچکے ہیں یا شاید جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں (یہ اوباما کا اپنا نفسیاتی تذبذب زیادہ محسوس ہوتا ہے)۔ جس وجہ سے وہ ان معاملات پر بات کرنا چاہتے ہیں یا کررہے ہیں ۔

نسل پرستی ان میں ایک ہے اور اہم معاشرتی نقص ہے۔ یہ سوال کہ کیا امریکہ کو ایک بڑھتی ہوئی نسل پرستانہ بے چینی کا سامنا ہے؟ تو اس کا جواب شائد نہیں میں ہوگا۔ نسل پرستی بنی نوع انسان کی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی کو کسی لحاظ سے کسی پر فوقیت دیتا ہے۔

سیاہ رنگ کے بارے میں عجیب بات یہ ہے کہ انسان دنیا کی ہر چیز میں کالا رنگ پسند کرتا ہے مثال کے طور کالے رنگ کے کپڑے، سیاہ رنگ کی گاڑی یا پھر سیاہ گھوڑا؟ تاہم انسان کے معاملے میں یہ پسندیدگی نفرت میں بدل جاتی ہے اور یہی نفرت دیگرعوامل (نسل، قومیت، آبائی تعلق، نسل سے منسوب خواص اورمعاشی غرضات) کے ساتھ مل کر ایک ایسے مرکب کا روپ دھار لیتی ہے جس کو ہم نسل پرستی کے نام سے جانتے ہیں۔ امریکی معاشرہ ایک طویل  سیاسی، سماجی اورمعاشی شکست وریخت کی پیداوار ہے۔ اس کے تانوں بانوں میں مختلف رنگ، قومیت اور نسلوں کے افراد ایک ہی لڑی سے جڑے ہوئے ہیں یہ جوڑ ایک الگ معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ امریکا بہت سے مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرچکا ہے۔ وہ مذہبی تعصب کے مسئلے کو ہضم کرچکا ہے، وہ جمہوری روایات کو (کم از کم اپنے ملک کی حد تک) اپنا چکا ہے۔ تعلیم صحت، سائنس و ٹیکنالوجی میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ نسل پرستی جو کہ ستارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک ایک مکروہ شکل میں امریکی معاشرے میں موجود رہی ہے، اس کی شدت جس مرضی حوالے سے دیکھا جائے اب وہ نہیں رہی۔

اسی سلسلے میں باراک اوباما نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسل پرستی ختم نہیں ہوئی مگر اپنے بڑوں سے پوچھیے یہ کافی بہتر ہوچکی ہے۔ 1950 کا وہ امریکہ جہاں سیاہ فاموں کے لئے گورے کا جھوٹا پانی ہوا کرتا تھا اب وہاں صورتحال کم از کم وہ نہیں رہی۔ ہاں مسائل ضرور ہیں مگر چونکہ میڈیا کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے مواد چاہئے ہوتا ہے اِس لئے پچھلے کچھ دنوں میں ہمیں امریکہ میں  نسل پرستی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔

یہ سوال کہ باراک اوباما کا صدر بن جانا نسل پرستی کا اختتام ہے؟ تو ایسا نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ یہ اس معاشرے کی لچکدار روش ہے جس میں تعصب کے (فرض کیجئے کہ امریکا میں سیاہ فاموں سے شدید نفرت ہے۔

سب سے آخر میں یہ کہ امریکہ میں نسل پرستانہ رویوں کی تہہ میں معاشی ناانصافی یا کم از کام معاشی دباؤ بھی کارفرما ہے۔ مثال کے طور پر جس شخص نے چارلسٹن چرچ پرحملہ کیا اس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بے روزگار تھا۔ اسی طرح وہ علاقے جہاں پر سیاہ فاموں کی اکثریت آباد ہے وہاں پر زندگی کی سہولیات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر نے اسلحہ کی دستیابی پر قانون سازی نہ کرنے پر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ جسے امریکی انتظامیہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم یہ کہ امریکا کے جدید معاشرے میں فرد معاشرتی تنہائی کا شکار ہے۔ امریکی حکومت کو اس پہلو پر سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ نسل پرستی تو ایک طرف مذہبی شدت پسندی بھی بڑھے گی جس کا ایک پیمانہ داعش سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں میں مغرب کی جانب سے کثیر تعداد میں افراد کی شمولیت ہے۔ اُمید افزا بات یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں مسائل کا ادراک کرتی ہیں چاہے اس کے لئے انہیں اپنی ناکامی تسلیم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جب کوتاہیوں کوتسلیم کرلیا جائے تو پھر حل کی جانب سفرطویل اور کٹھن نہیں رہتا۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں سیاہ فام افراد کو مستقبل میں وہی مقام حاصل ہوسکتا ہے جو سفید فام افراد کو ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔